بہاؤالدین زکریا ملتانی کے صوفی اقوال


بہاؤالدین دولت مند زندگی کے خلاف نہ تھے، کیوں کہ ان کے نزدیک اصل اہمیت روحانی و اخلاقی کمال کی ہے۔



فقیر یعنی خدا کی رضا میں راضی ہو، چاہے اس کے پاس کچھ نہ ہو، دنیا کے مال و زر سے بے نیاز ہو، مال ہو تو راہِ حق میں خرچ کرنے لیے ہو اور نہ ہو تو شکر و قناعت پر تکیہ ہو، فقیر جس قدر دنیا کے مال و متاع سے بے نیاز ہوتا جاتا ہے، اسی قدر اس کی زندگی الطافِ خفی اور اسرار کی روشنی سے وابستہ ہوتی ہے۔

علم کے معنی پہچان کے ہیں، علم ہی کے ذریعہ ایک سالک خدا کی بارگاہ میں درجات اور مراتب حاصل کرتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ وہ علم حاصل کرکے اس پر عمل بھی کرے۔

ترکِ دنیا درحقیقت دل کو دنیا کی محبت سے آزاد کرنا ہے، نہ کہ محض ظاہری دوری اختیار کرنا۔

ایک فقیر کی شان یہ ہوتی ہے کہ اس کے فقر و توکل کو دنیا کی کوئی شئے شکست نہیں دے سکتی اور اس کی ایک سانس دونوں عالم میں سما نہیں سکتی۔

انسان میں اصل چیز دل ہے اور جب اس دل کی اصلاح ہو جاتی ہے تو انسان کے ہر عضو کی اصلاح ہونے لگتی ہے۔



صوفی کو چاہیے کہ رزقِ حلال کے لیے بھرپور کوشش کرے مگر ساتھ ہی ذکرِ الٰہی میں بھی مشغول رہے۔


جب بندے کا یقین پختہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی حرکات و سکنات میں خدا کے جلوے رونما ہونے لگتے ہیں، اس کی عادتیں اس کے نفس پر غالب آ جاتی ہے۔

عارف گریہ کرتا ہے لیکن جب اس کو قربتِ خداوندی نصیب ہوتی ہے تو وہ گریہ بند کر دیتا ہے۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere