غلام حسن بیتھوی کا تعارف
غلام حسن بیتھوی اپنےعہد کے بڑے عالم و فاضل اور درویش کامل گزرے ہیں، کم عمری میں ہی آپ نے علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی اور علم معرفت کی طرف متوجہ ہوئے، اپنے نانا حضرت سید بدیع الزماں بن سید ضیاؤالدین سے تعلیم و تلقین حاصل کی اور انہیں کے اشارے سے سلسلۂ ابوالعلائیہ میں حضرت شاہ روشن علی (خلیفہ صوفی محمد دائم) سے بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت پایا، آپ فارسی زبان کے بہترین شاعر، ادیب اور انشا پرداز تھے، تیرھویں صدی ہجری میں شاعر و انشا پرداز کی حیثیت سے آپ کا بڑا شہرہ تھا، آپ کی تصنیف سے ایک مثنوی کارستانِ عشق کے نام سے ۱۲۸۴ھ میں شائع ہو چکی ہے اور ایک فارسی کا دیوان جو ایک سو صفحات پر مشتمل ہے، مختلف تذکرہ نویسوں کی روایت کے مطابق دیوان مذکور کے علاوہ ایک ضخیم کلیات تقریباً ۱۲ ہزار اشعار پر مشتمل آپ کی یادگار ہے جس میں غزل کے علاوہ تاریخی قطعات، رباعیات، مخمس، قصیدے وغیرہ لکھے ہیں، آپ کو فارسی غزل گوئی میں کافی مہارت تھی، بلکہ بہار کے چند فارسی گو شعرا میں آپ کا نام سرفہرست ہے، ۲۶ رجب المرجب ۱۲۵۸ھ میں ۷۰ سال کی عمر پا کر راہی ملکِ عدم ہوئے۔