غلام امام شہید کا تعارف
غلام امام شہید کا تعلق امیٹھی سے تھا اس وقت امیٹھی ضلع لکھنؤ کا ایک قصبہ ہوا کرتا تھا، غلام محمد کے بیٹے تھے۔ بالکل سادہ طبیعت کے مالک تھے تصوف کی طرف میلان ابتدا سے ہی تھا اسی وجہ سے ان کا حلقۂ ارادت بھی کافی وسیع تھا اور گرد و نواح میں ان کے صوفیانہ کلام کا خوب شور تھا۔ مداح نبی اور عاشق رسول کے القاب سے مشہور تھے، انہوں نے نعت گوئی کی روایت کو آگے بڑھایا اور اردو فارسی دونوں زبان میں بحر طویل میں نعتیہ قصیدے لکھے جو اپنی مثال آپ ہیں، اردو شاعری کے لئے قتیل ؔاور مصحفیؔ کو اپنا استاد گردانتے تھے اس کے علاوہ فارسی نظم و نثر میں ان کے استاد آغا سید مازندرانی تھے۔ سرکار نظام سے سالانہ وظیفہ بغیر کسی شرط خدمت کے ان کو مقرر تھا جو ان کے آخری ایام تک جاری رہا ان کا شمار فارسی اردو کے ممتاز صوفی شعرا میں ہوتا ہے۔ دیوانی جب الہ آباد سے اکبرآباد کو منتقل ہوئی تو غلام امام شہید، بیجمن ٹیلر بہادر کی خدمت میں اکبرآباد چلے آئے، لیفٹیننٹ ایل جیمس ٹامس بہادر نے ان کو ہدایت دی کہ اردو میں انشا پر ایسی کتاب تصنیف کریں جو نوجوان طلاب کو پڑھنے اور سمجھنے میں سہل ہو اور وہ اس کی مدد سے تعلیم حاصل کر سکیں اور اس کے لیے انہوں نے ’انشائے بہار بے خزاں‘ تصنیف کی جو چار ابواب پر مشتمل ہے۔ ان کا ایک دویوان فارسی زبان میں بھی موجود ہے، اردو زبان میں ایک کتاب ’گلزار خلیل‘ کے نام سے تصنیف کی ہے جو نعتیہ کلام اور اہل سادات کی مدحیہ شاعری پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ ایک کتاب ان کی علم طب ’علاج الغربا‘ کے نام سے موجود ہے۔ اس کو انہوں نے متعدد نسخوں کی مدد سے تیار کیا ہے، یہ کتاب 1865 عیسوی میں نولکشور سے مطبع ہے، غلام امام شہید کو مولانا شاہ قاسم ابوالعلائی داناپوری سے اجازت و خلافت بھی حاصل تھی، آپ کی مولود شہید خاصی مشہور ہے، کتابی میلاد کی شہرت سب سے زیادہ آپ سے ہوئی۔