Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Jigar Moradabadi's Photo'

جگر مرادآبادی

1890 - 1960 | مرادآباد, بھارت

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

جگر مرادآبادی کا تعارف

تخلص : 'جگر'

اصلی نام : علی سکندر

پیدائش : 01 Apr 1890 | مرادآباد, اتر پردیش

وفات : 01 Sep 1960 | اتر پردیش, بھارت

رشتہ داروں : اقبال صفی پوری (مرشد), فقیر محمد گویا (دادا)

جگر مرادآبادی کو اپنے عہد میں جو شہرت اور مقبولیت ملی اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ ان کی یہ مقبولیت ان کی رنگارنگ شخصیت، رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی بدولت تھی۔ جب ان کی شاعری ارتقائی منازل طے کر کے منظر عام پر آئی تو سارے ملک کی شاعری کا رنگ ہی بدل گیا اور بہت سے شعراء نے نہ صرف ان کے رنگِ کلام کی بلکہ ترنّم کی بھی نقل کرنے کی کوشش کی۔ جب جگر اپنا انداز ترنم بدل دیتے تو اس کی بھی نقل ہونے لگتی۔ بہرحال ان کا شعری انداز تو نقل کیا جا سکتا تھا لیکن ان کی شخصیت کی نقالی محال تھی۔ جگر کی شاعری حقیقی معنوں میں ان کی شخصیت کا آئینہ تھی۔ اس لئے جگر، جگر رہے۔ ان کے ہم عصروں میں یا بعد میں بھی کوئی ان کے رنگ کو نہیں پا سکا۔ جگر مرادآبادی کا نام علی سکندر تھا۔ وہ 1895ء میں مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ جگر کو شاعری ورثہ میں ملی تھی۔ ان کے والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے اور شہر کے با عزت لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ جگر کے مورث اعلی محمد سمیع دہلی سے تعلق رکھتے تھے اور مغل بادشاہ شاہجہاں کے دربار سے وابستہ تھے لیکن شاہی عتاب کے نتیجہ میں مرادآباد میں آ کر بس گئے تھے۔ جگر کے والد، خواجہ وزیر لکھنوی کے شاگرد تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام باغ نظر کے نام سے ملتا ہے۔ جگر کی ابتدائی تعلیم گھر پر اور پھر مکتب میں ہوئی۔ مشرقی علوم کے حصول کے بعد انگریزی تعلیم کے لئے انہیں چچا کے پاس لکھنؤ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ان کو انگریزی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نویں جماعت میں دو سال فیل ہوگئے تھے۔ اسی عرصہ میں والد کا بھی انتقال ہو گیا تھا اور جگر کو واپس مرادآباد آنا پڑا تھا۔ جگر کو زمانۂ تعلیم سے ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا لیکن طالب علمی کے زمانہ میں وہ اسے منظر عام پر نہیں لائے۔ جگر آزاد طبیعت کے مالک تھے اور بے حد حسن پرست تھے۔ تعلیم ترک کرنے کے بعد ان کے چچا نے انہیں مرادآباد میں ہی کسی محکمہ میں ملازمت دلا دی تھی ۔ ان کے گھر کے پاس ہی ان کے چچا کے ایک تحصیلدار دوست رہتے تھے جنہوں نے اک طوائف سے شادی کر رکھی تھی۔ جگر کا ان کے یہاں آنا جانا تھا۔ اس وقت جگر کی عمر 15 یا 16 سال تھی اور اسی عمر میں تحصیلدار صاحب کی بیوی سے عشق کرنے لگے اور انہیں ایک محبت نامہ تھما دیا جو انہوں نے تحصیلد ار صاحب کے حوالہ کر دیا اور تحصیلدار صاحب نے وہ جگر کے چچا کو بھیج دیا۔ چچا کو جب ان کی حرکت کی خبر ملی تو انہوں نے جگر کو لکھا کہ وہ ان کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ گھبراہٹ میں جگر نے بڑی مقدار میں بھانگ کھا لی۔ بڑی مشکل سے ان کی جان بچائی گئی جس کے بعد وہ مرادآباد سے فرار ہو گئے اور کبھی چچا کو شکل نہیں دکھائی۔ کچھ ہی عرصہ بعد چچا کا انتقال ہو گیا۔ مرادآباد سے بھاگ کر جگر آگرہ پہنچے اور وہاں ایک چشمہ ساز کمپنی کے سفری ایجنٹ بن گئے۔ اس کام میں جگر کو جگہ جگہ گھوم کر آرڈر لانے ہوتے تھے۔ شراب کی لت زمانہ طالب علمی ہی میں لگا چکے تھے۔ ان دوروں میں شاعری اور شراب ان ہم سفر رہتی تھی۔ آگرہ میں انہوں نے وحیدن نام کی ایک لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ وہ اسے لے کر اپنی ماں کے پاس مرادآباد آ گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد ماں کا انتقال ہو گیا۔ جگر کے یہاں وحیدن کے ایک رشتہ کے بھائی کا آنا جانا تھا اور حالات کچھ ایسے بنے کہ جگر کو وحیدن کے چال چلن پر شک پیدا ہوا اور یہ بات اتنی بڑھی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وحیدن نے چھ ماہ ان کا انتظار کیا پھراسی شخص سے شادی کر لی۔ جگر بے سرو سامان اور بے یار و مددگار تھے۔ اور اس نئی ذہنی و جذباتی اذیت کا مداوا ان کی شراب نوشی بھی نہیں کر پا رہی تھی۔ اسی عرصہ میں وہ گھومتے گھامتے گونڈہ پہنچے جہاں ان کی اصغر گونڈوی سے ملاقات ہوئی۔ اصغر نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ ان کو سنبھالا۔ ان کی دلدہی کی اور اپنی سالی نسیمہ سے ان کا نکاح کر دیا اور جگر ان کے گھر کے اک فرد بن گئے۔ مگر سفر، شاعری اور شراب نوشی نے جگر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ ازدواجی زندگی کی بیڑی بھی ان کو باندھ کر نہیں رکھ سکی۔ جگہ جگہ سفر کی وجہ سے جگر مختلف مقامات پر بطور شاعر متعارف ہو چکے تھے۔ شاعری کے ارتقائی مرحلہ میں بھی جگر اس طرح کے اچھے شعر کہہ لیتے تھے، رو لینے سے بھی کب بوجھ دل کا کم ہوا جب کسی کی یاد آئی پھر وہی عالم ہوا کچھ شاعری کی مقبولیت کا نشہ کچھ شراب کا نشہ اور کچھ پیشہ کی ذمہ داریاں غرض جگر اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر مہینوں گھر سے غائب رہتے اور کبھی آتے تو دوچار دن بعد پھر نکل جاتے۔ اہلیہ اپنے زیور بیچ بیچ کر گھر چلاتی۔ جب کبھی گھر آتے تو زیور بنوا بھی دیتے لیکن بعد میں پھر وہی چکّر چلتا۔ اس صورت حال نے اصغر گونڈوی کی پوزیشن بہت خراب کر دی تھی کیونکہ انہوں نے ہی یہ شادی کرائی تھی۔ اصغر گونڈوی کی بیوی کا اصرار تھا کہ اصغر نسیمہ سے شادی کر لیں لیکن وہ دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک ہی گھر میں شرعاً جمع نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا طے پایا کہ اصغر اپنی بیوی یعنی نسیمہ کی بڑی بہن کو طلاق دیں اور جگر نسیمہ کو طلاق دیں۔ جگر اس کے لئے راضی ہو گئے اور اصغر نے نسیمہ سے شادی کر لی۔ اصغر کی موت کے بعد جگر نے دوبارہ نسیمہ سے ان کی اس شرط پرنکاح کیا کہ وہ شراب چھوڑ دیں گے۔ دوسری بار جگر نے اپنی تمام سابقہ کوتاہیوں کی نہ صرف تلافی کر دی بلکہ نسیمہ کو زیوروں اور کپڑوں سے لاد دیا۔ دوسری بار نسیمہ سے شادی سے پہلے جگر کی تنہائی کا خیال کرتے ہوئے کچھ مخلص لوگوں نے ان پر شادی کے لئے دباو بھی ڈالا تھا اور بھوپال سے کچھ رشتے بھی آئے تھے لیکن جگر راضی نہیں ہوئے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ مین پوری کی ایک طوائف شیرازن ان سے نکاح کی آرزومند تھی۔ جگر بہت جذباتی، مخلص، صاف گو، محب وطن اور ہمدرد انسان تھے۔ کسی کی تکلیف ان سے نہیں دیکھی جاتی تھی۔ وہ کسی سے مرعوب بھی نہیں ہوتے تھے۔ لکھنو کے وار فنڈ کے مشاعرہ میں جس کی صدارت ایک انگریز گورنر کر رہا تھا۔ انہوں نے اپنی نظم "قحط بنگال" پڑھ کر سنسنی مچا دی تھی۔ کئی ریاستوں کے والی ان کو اپنے دربار سے وابستہ کرنا چاہتے تھے اور ان کی شرائط ماننے کو تیار تھے لیکن وہ ہمیشہ اس طرح کی پیشکش کو ٹال جاتے تھے۔ ان کو پاکستان کی شہریت اور عیش و آرام کی زندگی کی ضمانت دی گئی تو صاف کہہ دیا جہاں پیدا ہوا ہوں وہیں مروں گا۔ گوپی ناتھ امن سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے۔ جب وہ ریاستی وزیر بن گئے اور ایک محفل مشاعرہ میں ان کو شرکت کی دعوت دی تو وہ محض اس لئے شریک نہیں ہوئے کہ دعوت نامہ وزارتی لٹر ہیڈ پر بھیجا گیا تھا۔ پاکستان میں ایک شخص جو مرادآباد کا ہی تھا ان سے ملنے آیا اور ہندوستان کی برائی شروع کر دی۔ جگر کو غصہ آ گیا اور بولے "نمک حرام تو بہت دیکھے آج وطن حرام بھی دیکھ لیا" جگر نے کبھی اپنی شراب نوشی پر فخر نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے اس دور کو دور جہالت کہتے رہے۔ بہر حال انہوں نے شراب چھوڑنے کے بعد رمی کھیلنے کی عادت ڈال لی تھی جس میں کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ اس کے لئے وہ کہتے تھے۔ "کسی چیز میں غرق رہنا یعنی خود فراموشی میری فطرت ہے یا بن گئی ہے۔ خود فراموشی اور وقت گزاری کے لئے کچھ تو کرنا چاہئے اور میری عادت ہے کہ جو کام بھی کرتا ہوں اس میں اعتدال کی حدوں پر نظر نہیں رہتی" جگر آخری زمانہ میں بہت مذہبی ہو گئے تھے۔ 1953ء میں انہوں نے حج کیا۔ زندگی کی بے اعتدالیوں نے ان کے اعضائے رئیسہ کو تباہ کر دیا تھا۔1941ء میں ان کو دل کا دورہ پڑا۔ ان کا وزن گھٹ کر صرف 100 پونڈ رہ گیا تھا۔ 1958ء میں انہیں دل و دماغ پر قابو نہیں رہ گیا تھا۔ لکھنو میں انہیں دو بار دل کا دورہ پڑا اور آکسیجن پر رکھے گئے۔ خواب آور دواوں کے باوجود رات رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ 1960ء میں ان کو اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا اور لوگوں کو اپنی چیزیں بطور یادگار دینے لگے تھے۔ اسی سال اگست میں ان کا انتقال ہو گیا۔ جگر ایسے شاعر ہیں جن کی غزل قدیم تغزّل اور بیسویں صدی کے وسط و اوآخر کی رنگین نگاری کا خوبصورت امتزاج ہے۔ جگر شاعری میں اخلاقیات کا درس نہیں دیتے لیکن ان کی شاعری کا اخلاقی معیار بہت بلند ہے۔ وہ تغزّل کے پردہ میں انسانی خامیوں پر ضربیں لگاتے گزر جاتے ہیں جگر نے قدیم اور جدید تمام شعراء کی فکر سے استفادہ کیا۔ وہ بہت زیادہ آزاد نہ سہی لیکن مکتبی معائب سخن کی زیادہ پرواہ نہیں کرتےتھے۔ وہ فکر اورغنائیت کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر قربان نہیں کرتے۔ ان کا کلام بے ساختگی اور آمد سے معمور ہے۔ سرمستی اور دلفگاری، تاثر اور سرشاری ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ان کی زندگی اور ان کی شاعری میں مکمل مطابقت ہے محاکات کے اعتبار سے اکثر مقامات ایسے ملیں گے کہ مصور کے تمام کمالات ان کی تصویر کشی کے سامنے ہیچ نظر آئیں گے۔ جگر حسن و عشق کو مساویانہ درجہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک حسن اور عشق دونوں ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ جگر نے تغزل کو معراج کمال تک پہنچا دیا اور یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے