Font by Mehr Nastaliq Web
noImage

مہاراجہ بلوان سنگھ

آگرہ, بھارت

مہاراجہ بلوان سنگھ کا تعارف

تخلص : 'راجہ'

اصلی نام : بلوان سنگھ

پیدائش :وارانسی, اتر پردیش

راجہ تخلص، مہاراجہ بلوان سنگھ بہادر، خلفِ مہاراجہ چہیت سنگھ بہادر، والیِ بنارس جو آگرہ میں رہتے تھے اور ہندی وارود زبان میں شعر کہتے تھے، یہ قوم سے ترکرما برہمن تھے، ان کے مورثِ اعلیٰ راجہ منارام گنگا پور کے زمیندار تھے، ان کو محمد شاہ بادشاہ دہلی نے بروقتِ اختلالِ سلطنتِ دہلی اور بد انتظامیِ صوبۂ بنارس واسطے بندوبستِ امنِ و امانِ ملک و مال اُس ضلع کے منتخب کرکے شاہی سند تین سرکاروں بنارس، جونپور اور غازی پور کی اس شرط پر بخشی کہ تیرہ لاکھ روپیہ بطورِ مال گزاری خزانۂ دہلی میں داخل کیا کریں، راجہ منارام نے اس عطیۂ شاہی سے بطورِ حاکم بالا استقلال بنارس میں متیع و کبر و شکوہ کے ساتھ آٹھ برس تک حکمرانی کی، ان کے مرنے پر ان کے بیٹے راجہ بلونت سنگھ بادشاہ کی منظوری سے ۱۷۳۸ میں اپنے باپ کے جانشین ہوئے۔

انہوں نے اپنے نرمی سے باپ کی مالکانہ حکومت کی بہ نسبت اتنا اور بھی زیادہ کیا کہ اپنے نام کا سکہ چلایا، جس سے اس علاقہ میں ان کا اقتدار بخوبی جم گیا لیکن بادشاہ نے وہ سکہ بند کر دیا، تب جائے اس کے ایک دوسرا سکہ بادشاہ کے نام کا بنارس کے لیے جاری ہوا اور اس کی ٹکسال و نگرانی انہی کے اختیار میں رہی، چوں کہ ان کی زمانہ میں سلطنتِ دہلی روز بروز ضعیف ہوتی گئی تھی، اس لیے ان کو اپنی ریاست بڑھانے کا موقع ملتا گیا مگر جو خراج مقررہ تھا وہ سال بہ سال محمد شاہ بادشاہ کی زندگی تک، جس کا خاتمہ ۱۸۴۸ میں ہوا، خزانۂ شاہی میں داخل کرتے رہے۔

بعد انتقالِ بادشاہ موصوف کے جو خرابیاں پڑھیں اور ادویۂ الہ آباد کے صوبہ نواب سعادت خان کے تعلق ہوئے، تب بنارس کا علاقہ بھی جو شاملِ صوبۂ الہ آباد کا تھا اس کے متعلق ہوگیا اور راجہ بلونت سنگھ ایک عرصہ تک اس سے علیحدہ علیحدہ رہے، بعدہٗ جب اس نے اور اس کے باپ راجہ نبی بہادر نے ان کا اطمینان کر دیا تو اس کے شامل رہے اور بعد انتقالِ نواب مذکور کے ۱۷۶۲ میں جب شاہ عالم اور شجاع الدولہ نے بنگالہ پر حملہ کیا تو یہ بھی ان کی ہمراہ گئے۔

بعد جنگ بکسر ہمراہ شاہ عالم بادشاہ کے انگریزوں کی فوج میں آئے اور ان کی زمینداری ۱۷۶۴ میں اودھ کی گورنمنٹِ انگریزی کو منتقل ہوئی لیکن یہ کارگزاری پارلیمنٹِ دلاپت نے منظور نہ کی اور ۱۷۶۵ میں ان کا علاقہ پھر اودھ کو واپس کیا گیا اور نواب شجاع الدولہ سے شرط کی گئی کہ راجہ بنارس کو بصورتِ ادائے مال گزاری اس کے علاقہ پر قابض رکھے۔

۱۷۷۰ میں راجہ بلونت سنگھ نے وفات پائے، نواب نے چاہا کہ علاقہ ضبط کر لے مگر سرکارِ انگریزی نے مداخلت کرکے زبردستی راجہ چیت سنگھ ولدِ راجہ بلونت سنگھ کو مسند نشین کرایا، ۱۷۷۵ میں یہ زمینداری ہمیشہ کے واسطے بنامِ گورنمنٹِ انگریزی مستقل ہوئی اور ۱۷۷۶ میں راجہ کو از روئے سند اختیارِ ملکی، مالی اور جاری کرنے ٹکسال کا بشرطِ اداے ۲۲ لاکھ ۶۶ ہزار ایک سو اسی روپیہ مالگزاری دے دیا گیا۔

۱۸۷۸ میں لارڈ ہیٹنگ صاحب گورنر جنرل نے راجہ کے اوپر بہت سا بار ڈالا کہ اول تو پانچ لاکھ سالانہ تین برس تک واسطے خرچِ تین پلٹن کے جبراً راجہ سے لیے گیے اور پھر یہ بھی حکم ہوا کہ راجہ اپنی سوار سرکاری کام کے واسطے دیا کرے، ان باتوں سے راجہ چیت سنگھ ناراض ہو کر ادائے مالگزاری میں تساہل کرنے لگے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ وہ دشمنانِ سرکارِ انگریزی سے مل گئے ہیں، تب ۱۷۸۱ میں ان کو محل میں نظر بند کر دیا گیا، اس پر فساد ہو کر سرکاری کار وقتل ہوا اور راجہ بھاگ کر فوج جمع کی اور کئی دفعہ کار سے مقابلہ کیا مگر ہر بار شکست کھائی اور آخر سندیہ کے پاس جا کر پناہ لی۔

سرکار نے ان کا علاقہ ضبط کرکے ان کے بھتیجے ہست نراین کو بشرطِ ادائے چالیس لاکھ روپیہ مالگزاری بلا اختیارِ دیوانی، فوجداری اور ٹکسال کے دے دیا، وہ ۱۷۹۵ میں فوت ہوئے اور ان کے فرزند اودت نراین ان کی جگہ بیٹھے، ۱۸۳۵ میں ان کا بھی انتقال ہوا اور ریاست ان کے بھتیجے اور متنبی مہاراجہ ایسری پرشاد نراین کو ملی، چنانچہ وہ رئیسِ نکِ نام بنارس ہیں۔

اور راجہ چیت سنگھ جو سندیہ کے پاس پناہ گزین ہوئے تھے، وہ ۱۸۱۰ میں وہیں مر گئے، ان کے بیٹے مہاراجہ بلوان سنگھ سرکارِ انگریزی کی منظوری سے آگرہ میں آئے اور ان کے لیے ایک معقول پنشن بنارس سے مقرر ہوگئی، وہ بطورِ ایک رئیسِ اعظم کے آگرہ میں رہتے تھے اور وہاں کے لوگوں کو ان سے بڑا فیض پہنچتا تھا۔

اور شاعری کا شوق بھی ان کو آگرہ میں وہاں کے منتخب اور نامی شاعروں مثل میر گلزار علی اسیر اور مرزا حاتم علی بیگ وغیرہ سے پیدا ہوا اور انہی سے انہوں نے شعر و شاعری کا لیا ہے، دیوان ان کا چھپ گیا ہے اور چند ہندی کتابیں مثل چتر چندرکا وغیرہ بھی ان کی تصنیف سے مشہور اور مقبولِ عام ہوگئی ہیں، افسوس ہے کہ اب یہ راجہ صاحب زندہ نہیں اور ان کے انتقال کو عرصہ قریب دس سال کا ہوا، ان کی صاحبزادی آگرہ میں ان کی جانشین ہیں، ہم نے یہ چند شعر اُن کے اپنے تذکرہ کے لیے منتخب کیے ہیں۔

 

موضوعات

Recitation

بولیے