Sufinama
Mirza Muhammad Ali Fidvi's Photo'

مرزا محمد علی فدوی

پٹنہ, بھارت

’’عاشق کا جنازہ ہے ذڑا دھوم سے نکلے‘‘ کے لیے مشہور

’’عاشق کا جنازہ ہے ذڑا دھوم سے نکلے‘‘ کے لیے مشہور

مرزا محمد علی فدوی کا تعارف

تخلص : 'فدوی'

اصلی نام : مرزا محمد علی

پیدائش :شاہجہاں پور, اتر پردیش

وفات : بہار, بھارت

رشتہ داروں : خواجہ رکن الدین عشقؔ (مرشد)

مرزا محمد علی فدوی عرف مرزا بھجو شاہجہاں آباد کے رہنے والے تھے۔ یہیں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔ تلاشِ معاش نے دربدر کر دیا۔ پہلے لکھنؤ کی گلیاں ناپیں پھر فیض آباد کی خاک چھانی۔ کچھ وقت دہلی میں بھی گزارا اور وہاں سے عظیم آباد پہنچ کر وہاں کی روحانی ہستی خواجہ رکن الدین عشق کی شاگردی اختیار کی۔ انہوں نےاپنے اُستاد کا ذکر اپنے اشعار میں بڑی محبت سے کیا ہے۔
ورقِ گُل پہ کر رقم فدوی تیرے ہر شعر میں ہے نکہتِ عشق اِس کو کُچھ اور مت سمجھنا تُو ہے سراسر یہ فیضِ حضرتِ عشق فدوی مریض عشق کو کیا پوچھتا ہے تُو منہ دیکھنے سے یار کے چہرہ بحال ہے کچھ دن مرشدآباد میں قیام رہا پھر 1190ھ کے آس پاس عظیم آباد میں آکر مستقل سکونت اختیار کی۔ فدوی کی علمی استعداد اور ان کے ذاتی کمالات کا اندازہ مقامی و غیر مقامی تذکرہ نگاروں کے حوالے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ شیفتہ، باطن اور نساخ نے انہیں احمد شاہ بادشاہ کا وقائع نگار لکھا ہے۔ یہ واقعہ فدوی کی علمی لیاقت و فضیلت کا بین ثبوت ہے۔ مزید بر آں کلام فدوی کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ زبان ریختی کے ماہر تھے۔ وہ عربی و فارسی میں بڑی لیاقت رکھتے تھے۔ میر حسن، خلیل اور عشقی نے انہیں علم موسیقی اور فن ستار نوازی سے آشنا کہا ہے۔ فدوی فن موسیقی میں بھی ید طولی رکھتے تھے۔ کام دنیا میں کیجئے وہ فدوی جس سے اپنا ہمیشہ نام رہے مرزا محمد علی فدوی کو خواجہ رکن الدین عشق سے بیعت و تعلیم باطنی کے علاوہ تلمذ خاص بھی حاصل تھا۔ فدوی کی زندگی کے آخری ایام خواجہ عشق کی معیت میں گزرے۔ اس کا اثر ان کی شخصیت و کردار پر نہایت ہی صحت مند پڑا۔ فدوی کی شیریں بیانی، خوش گوئی اور سخن فہمی کا تذکرہ بڑے شاندار الفاظ میں ان کے معاصرین نے بھی کیا ہے۔ فدوی اللہ والےاور نقشبندی ابوالعلائی تھے۔ شروع شروع میں کچھ عشقیہ شاعری کی مگر خواجہ عشق کی صحبت نے ان کو تصوف کے رنگ میں رنگ دیا۔ فدوی کی پیدائش اور وفات کا سال غیر معین ہے۔ ڈاکٹر محمد حسنین کی تحقیق کے مطابق سال ولادت 1142ھ سے 1152ھ کے درمیان ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے 1203ھ سے 1215ھ کے درمیان ان کا سال وفات بتایا ہے۔ فدوی تادم آخر اپنے استاد اور پیر ومرشد خواجہ رکن الدین عشق سے جدا نہ ہوئے اور مرنے کے بعد بھی اپنے پیر دستگیر کے قریب ہی مدفون ہیں۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے