منشی نتھن لال کا تعارف
منشی نتھن لال بہجتؔ کی ولادت سرونج (مالوہ، ٹونک) میں ستی بھادوں بدی ۱۸۷۶ء کو ہوئی، ابتدائی تعلیم و تربیت ٹونک میں اپنے نانا بخش دولت رائے کی زیر نگرانی حاصل کی، بعد ازاں ۱۸۹۰ء کے بعد ریاستِ ٹونک میں نواب محمد امیر خان کے صاحبزادے حافظ عبدالکریم خان کی سرکار میں متصدی و پیشکار رہے اور ۱۹۲۶ء تک نہایت ایمان داری، دیانت اور خوش روی سے خدمت انجام دی۔
صاحبزادۂ ممدوح کے انتقال کے بعد درگاہِ خواجہ معین الدین چشتی کے متولیوں نے آپ کو نائب متولی مقرر کیا، جہاں آپ گزشتہ چودہ پندرہ سال سے نہایت خلوص سے خدمت انجام دے رہے ہیں، اجمیر میں آپ کا قیام تقریباً چالیس برس سے ہے اور علم، عمل، دیانت، سادگی اور حسنِ معاشرت کے باعث شہر کے ہندو مسلمان سبھی آپ کے قدردان ہیں۔
آپ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ طالب علموں کی خدمت اور تعلیم میں وقف کر رکھا ہے جو چاہے کتاب لے آئے، آپ بلا معاوضہ پڑھاتے ہیں، لکھ کر دیتے ہیں، اصلاح فرماتے ہیں، خط، عرضیاں اور دیگر تحریری کام بھی مدتوں مفت کیا کرتے تھے، دیانت میں آپ کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے معاملات میں صاف گوئی اور حق بیانی سے کبھی نہ ہٹے، کئی مواقع پر آپ کی راست گوئی نے بڑے لوگوں کو سچائی قبول کرنے پر مجبور کیا۔
آپ نہایت قناعت پسند، دنیوی حرص سے بے نیاز اور قوتِ حلال کے پابند رہے، کبھی ناجائز طریقے سے ایک پیسہ نہ لیا، انکم ٹیکس کے زمانے میں بھی باوجود کم آمدنی کے جو آمدنی کبھی کبھار ملتی تھی اسے بھی ظاہر کر کے ٹیکس ادا کیا۔
آپ کی راست بازی، خوش اخلاقی اور نیک عادات سے مسلمان بھی بہت متاثر تھے، صاحبزادہ محمد خان فرمایا کرتے تھے کہ
“لالہ جی میں سب اوصافِ حمیدہ موجود ہیں، بس مسلمان نہیں اگر ہوتے تو میں ان کا مرید ہوتا”
مذہبی طور پر آپ پکے ہندو اور وشنو بھگت تھے، روزمرہ میں عبادت، پاٹھ، پوجا کے بعد دفتر جاتے پھر شام کو مندر حاضر ہوتے، ممنوعات سے سخت پرہیز اور طبیعت میں یک رنگی و سادگی نمایاں تھی “قصائد بر فواید” نامی مذہبی مناجات بھی آپ کی تصنیف ہے۔
آپ کا وجدان اور درست رائے بھی لوگوں میں مشہور تھی، محمود سلاوٹ سمیت کئی لوگوں نے گواہی دی کہ آپ نے جو مدت بتائی، ویسا ہی نتیجہ ہوا، اسی بنا پر شہر کے بعض لوگ آپ کو نیک طبع اور صاحبِ اثر سمجھتے تھے۔
شعر و سخن کا شوق ابتدا سے تھا اور مشاعروں میں برابر شرکت رہی، مشکل سے مشکل طرح پر فوراً غزل کہہ دیتے، ایک مشاعرے میں آپ کا یہ شعر سب پر فائق آیا اور دیر تک وجد کی کیفیت رہی۔
کیا کہیں شیفتہ میں پردہ نشینوں کی ہم
کون ذلت میں بڑے نام کسی کا لے کر
اجمیر کے نامور شعرا نے آپ سے اصلاح لی جن میں سیف الدین خان سیفؔ، فیض محمد خان فیضؔ، شیخ حیات اللہ، لالہ مول چند وغیرہ شامل ہیں، ایک پیرزادہ تو محض ایک قطعہ سن کر کشن گڑھ سے آپ کی زیارت کے لیے آیا۔
آپ خوش خط بھی تھے، نواب وزیرالدولہ بہادر، صاحبزادہ عبدالکریم خان اور کرنل چارلس ڈگن بہادر آپ کی تحریر کے معترف تھے، دیوان تو مرتب نہ ہوسکا۔