نثار اکبرآبادی کا تعارف
تخلص : 'نثارؔ'
اصلی نام : نثارعلی
وفات : 01 Apr 1922 | اتر پردیش, بھارت
رشتہ داروں : بیدم شاہ وارثی (مرشد)
نثار اکبرآبادی بیدم وارثی کے فن شاعری میں استاد اور حضرت شاہ اکبر داناپوری کے مرید، خلیفہ اور نامور شاگرد گذرے ہیں۔ نثار کی نشو و نما والدین کے زیر سایہ ہوئی۔ ابتدائی علوم والد سے اور بقیہ علوم علمائے عصر سے حاصل کی۔ عربی و فارسی زبان پر یکساں عبور تھا۔ مطالعہ کتب رفیق طبیعت تھا، ہندی بھی خوب جانتے تھے۔ پہلے والد کے اثاثہ سے گزران کی پھر درس و تدریس کا شغل اختیار کیا۔ یہ پیشۂ معلمی تا بہ مرگ جاری رہا۔ اسکول کے طلبا کو دینیات پڑھاتے تھے۔ آخر عمر میں نواب محمد اسمعیل خاں کے یہاں معلم مقرر ہوئے۔ نواب صاحب آپ کی توقیر و منزلت خوب کرتے تھے۔ نوعمری میں حضرت مہرؔ، باطن، بےخبر، ساحرؔ اور راجہ کے مشاعروں میں شریک ہوئے۔ راجہ بلوان سنگھ کاشی کے یہاں شعرا کی محفل گرم ہوتی۔ مہراکبرآبادی کے مکان پر 15روزہ مجلس منعقد ہوتی۔ قاضی باقر علی خان کے برادر زادہ منشی سید علی خاں متخلص بہ افضلؔ منصف فتح آباد کے یہاں بھی بڑے پیمانہ پر مشاعرہ ہوتا۔ نثار کو بھی شعر کہنے کا شوق ہوا مشق سخن کرتے رہے۔ پہلے پہل مہرؔ اکبرآبادی سے مشورہ لیا اور کچھ ہی روز بعد حضرت شاہ اکبر داناپوری کی صحبت اختیار کی اور نقشبندی ابوالعلائی سلسلے میں حضرت اکبر سے بیعت ہوئے۔ اجازت و خلافت پائی اور پھر حضرت اکبر کے تلامذہ کےحلقے میں شامل ہوئے۔ نثار کی شاعری میں تصوف کا رنگ حضرت شاہ اکبر داناپوری کی محنت کا نتیجہ تھا۔ حضرت اکبر کے تلامذہ میں نثار کا مقام بہت بلند ہے۔ آگرہ میں اساتذۂ وقت کے درمیان ایک دوسرے میں چشمک رہا کرتی ہے مگر نثارؔ ہی ایک ایسے شخص تھے کہ مرزا رئیس، سید تصوف حسین واصف، شیخ عالی جیسے استاد ان کا احترام کرتے تھے۔ یہ بھی ان کے ساتھ خلوص کا برتاؤ کرتے تھے۔ غزل پڑھنے کا انداز خاص تھا۔ غزل پڑھتے تو آہستہ آہستہ تحت الفظ پڑھتے۔ ارباب محفل ان کے اس انداز سے بے انتہا محظوظ ہوتے اور رموز الشعرا کی شاباش، جیتے رہو کے حوصلہ افزا جملوں سے قدردانی کرتے۔ اپنے یا دوسرے اساتذہ کے شاگردوں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرتے۔ آپ کے کثیر تلامذہ ہیں جن کے احوال نہالستان نثار میں بالتفصیل تحریر ہیں۔ بیدمؔ وارثی، مظہرؔ آغائی، صوفیؔ اکبرآبادی اور شام بابو اکبرآبادی پر بےحد نوازشات تھیں۔ ایک عرصہ تک امراض کا شکار رہے۔ آخر 27 اپریل1921ء کو راہی عالم جاودانی ہوئے۔ آپ کی رحلت پر شاہ محسن داناپوری اور سیماب اکبرآبادی نے قطعہ تاریخ رقم فرمایا ہے۔ آپ کی تصانیف میں مذاق عشق، خمار عشق، دل (ملفوظات حضرت شاہ اکبر داناپوری)، ایک مکمل دیوان، ایک غیر مکمل اور فارسی و ہندی کلام کا مجموعہ قابل ذکر ہیں۔