قادر بخش بیدلؔ کا تعارف
فقیر قادر بخش بیدلؔ کا مقام پاکستان کے صوفی سرائیکی شعرا میں اولین فہرست میں آتا ہے۔ ان کے والد کا نام محمد محسن تھا۔ وہ بھی ایک صوفی اور درویش صفت انسان تھے۔ سندھ کے مشہورصوفی سید عبد الوہاب جیلانی سے بیعت کا شرف رکھتے تھے۔ چوں کہ ان کے والد کو شیخ عبدالقادر جیلانی سے بڑی محبت اور لگاؤ تھا اسی لئے ان سے نسبت کرتے ہوئے ان کا نام عبدالقادر رکھا گیا لیکن بیدلؔ نے احتراماً اپنے آپ کو قادر بخش کہلوانا زیادہ پسند کیا اور شاعری کے لئے بیدلؔ تخلص کا انتخاب کیا۔1815ء میں ریاست سندھ کے علاقہ روہڑی میں ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کےلئے ان کو مکتب میں داخل کرایا گیا لیکن وہاں صرف حرف الف سے آگے نہ پڑھ سکے۔ انہوں نے قرآن، فقہ، حدیث، ریاضت اور منطق وغیرہ کی تعلیم کس سے لی اس کے بارے میں کوئی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔ ان کی تصنیفات کی ایک طویل فہرست موجود ہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے عربی، فارسی، اردو، تصوف اور علم طب کی وغیرہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے چند مقامات کا سفر بھی کیا۔ ان کو شہباز قلندر سے گہری عقیدت تھی اس لئے سہون شریف تشریف لے گئے اور ان کی درگاہ پر کافی عرصہ تک قیام پذیر رہے۔ اسی سلسلے میں یہ صبغت اللہ شاہ اول کی خدمت میں ان کے آبائی گاؤں پیر پگاڑا پہنچے اور ان کے صاحبزادے گوہر علی شاہ کو خصوصی طور پر "مثنوی معنوی" مولانا رومؔ کی تعلیم دی جس کا نتیجہ یہ رہا کہ پیر علی گوہر شاہ سندھی زبان کے ایک اعلیٰ صوفی شاعر ہوئے جنھوں نے اصغرؔ تخلص کیا۔ اسی طرح انہوں نے شاہ لطیف بھٹائی، سچلؔ سرمست اورمخدوم محمد اسماعیل کی درگاہوں کی زیارت کی اور سلوک و طریقت ہم عصر شیخ و مشائخ سے حاصل کی۔ 1873ء میں انہوں نے انتقال فرمایا۔ آپ کے صاحبزادے محمد محسن بیکسؔ سرائیکی زبان کے ایک معروف شاعر ہیں۔ انہوں نےجو نوحہ منظوم کیا اس سے ان کی تاریخ وفات یہی حاصل ہوتی ہے۔ آپ کے جنازے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور روہڑی اسٹیشن کے پاس آپ کو دفن کیا گیا۔ تصوف میں وحدۃ الوجود کے حامی تھے۔ شیعہ اور سنی دونوں مسلک میں مقبول تھے۔ آپ نے حضرت علی اور امامین کی شان میں نظمیں کہیں ہیں۔ محرم میں اہل تشیع کے ساتھ عزاداری میں بھی شامل ہوتے تھے۔ شیعہ سنی جھگڑوں سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھا۔ عشق کو مذہب کی روح سمجھتے تھے۔ بیدل نے اگرچہ بہت سارے صوفیا کی مزاروں اور درگاہوں کی زیارت کی لیکن اس کے ساتھ انہوں نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کی تصانیف کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ چہار زبان اردو، فارسی، سندھی اور عربی پر دسترس تھی اور ہر زبان میں ان کی تصانیف موجود ہیں۔ نظم و نثر دونوں میں طبع آزمائی کی اس کے علاوہ علم طب پر بھی ان کی تصنیف موجود ہے۔