سید امجد علی شاہ کا تعارف
حضرت مولانا سید شاہ امجد علی قادری الجعفری متخلص اصغر ابن مولوی سید احمدی شاہ ابن سید الہام اللہ ابن سید خلیل اللہ ابن سید فتح اللہ ابن حضرت سید ابراہیم مدنی العروف قطب المدنی سلسلۂ نسب 23 واسطوں سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔
حضرت قطب المدنی روضۂ منورہ کے سجادہ نشین تھے، عہدِ جہانگیری میں مدینہ سے ہندوستان آئے اور آگرہ میں اقامت ڈالی، اراکینِ سلطنت میں سے اکثر امرا مثل خان جہاں لودی سے آپ کے معتقد تھے، خان جہاں نے اپنے محلات کا بڑا حصہ سید فتح اللہ کی خدمت میں پیش کردیا تھا۔
مولانا سید احمداللہ شاہ مشہور سید احمدی کے زمانہ میں آگرہ میں انقلابات سیاسی رونما ہوئے جس کا اثر شاہ صاحب پر بھی پڑا حویلی نذرِ آتش ہوئی، علمی سرمایہ جو ایک ہزار کتب پر مشتمل تھا وہ بھی خاک ہوا، شاہ صاحب یہاں سے اٹھ کر مدرسہ افضل خاں میں اقامت پذیر ہوگئے وہیں آپ کے استاد مولانا شاہ عادل رہا کرتے تھے، ان کے بعد مسندِ تدریس پر بیٹھے، شغل درس و تدریس اور رشد و ہدایت میں لگ گئے، سن 1216 ہجری میں انتقال فرمایا۔
حضرت اصغر نے علومِ عقلیات کی تحصیل اپنے والدِماجد سے کی، بعدِ تکمیل درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔
مولانا احمد حسین مرادآبادی انوارالعارفین میں لکھتے ہیں کہ
سیدالسند محب الفقرا والغربا شیخ المشائخ طریقہ قادری مولوی امجد علی ابن مولوی سید احمد جعفری خلیفۃ الاعظم سید عبداللہ بغدادی بودند اہل طریقۃ ایشاں می گوید کہ بارشاد جناب محبوب سبحانی سید عبداللہ برائے تعلیم ایشاں از بغداد در ہند تشریف آوردند نسب ایشاں بہ نسبت وپنج واسطہ بسید اسحاق بن امام جعفر صادق علیہ السلام رسد۔
جنابِ اصغر علم و فضل کے ساتھ شیخ طریقت تھے، حضرت شاہ عبداللہ بغدادی کے مرید وخلیفہ تھے اور سید شاہ ضیاؤالدین بلخی سے بھی خاندان چشتیہ و نقشبندیہ میں صاحبِ اجازت تھے۔
نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ گلشن ِ بیخار میں لکھتے ہیں کہ
”بوقع وقار تما موتورع وثقابت تام زندگی کردہ“
دوم ربیع الاول سن 1232 ہجری بمقام حویلی خواجہ نائی منڈی آگرہ میں اس جہانِ فانی سے رحلت فرمائی اور مدرسہ شاہی پنجہ میں دفن ہوئے۔