Font by Mehr Nastaliq Web

صوفی اورسنتوں کی فہرست

سیکڑوں شاعروں کا منتخب کلام

خانوادہ انیسؔ کے معروف شاعر شدید لکھنوی کے شاگرد

رسالہ ’’تاج‘‘ گیا کے مدیر، اردو سبھا گیا کے سیکریٹری اور کتاب بزم فروغ کے مرتب

مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ شاہ جہاں کی صاحبزادی اور صوفی خاتون، مصنفہ و شاعرہ

بنگال کے اولین صوفی، شیخ ابو سعید تبریزی کے مرید اور شیخ شہاب الدین سہروردی کے خلیفہ، جنہوں نے تصوف کی گہری تعلیمات اور سہروردی سلسلے کی روحانی وراثت کو بنگال میں پھیلایا۔

داغ دہلوی کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعرا

دوہے کہنے کے لئے مشہور

سادہ مزاج اور کم گفتار والا ایک وارثی شاعر

’’امیرِ ملت‘‘ کے نام سے شہرت رکھنے والے تیرہویں صدی ہجری کے مقبول صوفی

نہایت خوش فکر اور خوش گو شاعر

جمیل احمد جمیل مرصع پوری 15؍ جولائی 1931ء کو پریاواں کے ایک گاؤں مرصع پور میں پیدا ہوئے جو پرتاب گڑھ میں مانک پور سے قریب ہے۔ مدرسہ اسلامیہ مرصع پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کے استاد انجم فوقی بدایونی تھے۔ ملک کے سرکردہ شعراء نے ان کے زمانے میں ان کی طرح ممبئی کا رخ کیا۔ شکیل، مجروح اور علامہ آرزو لکھنوی کی صحبت ملی۔ جس میں ان کا شاداب ہونا ضروری تھا ان دنوں 72سال کے ہونے کے باوجود شعر گوئی ترک نہیں کی۔ آج بھی ممبئی کی ادبی محفلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ حال ہی میں جمیل صاحب کا شعری مجموعہ ’’بے نام سی خوشبو‘‘ شائع ہوا۔ انہوں نے اپنے کلام کا انتخاب شائع کیا ہے۔ مختصر ہی سہی مجموعے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا پیش لفظ اردو ادب کے ممتاز شاعر قیصرالجعفری اور محقق و ناقد پروفیسر مجاہد حسین حسینی نے لکھا ہے۔ ان کی سچی اور کھری شاعری کا اعتراف انجم صاحب نے بھی اپنی تحریر میں کیا ہے۔ جمیل مرصع پوری کی شاعری تکلف اور تصنع سے بھی پاک ہے جیسے وہ خود ہیں۔ جمیل احمد جوانی میں بہت خوبصورت تھے۔ ہمیشہ چہکتے رہتے تھے۔ اس وجہ سے دوستوں میں اکثر ان کے حاسد تھے۔ بڑے شعراء کے درمیان ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا اس لئے بھی سرخرو تھے۔ چھوٹے بڑے سب سے اخلاص و محبت سے ملتے ہیں۔ مشاعرے اور ادبی پروگرام کراتے رہتے ہیں۔ ہر سال علامہ اقبال کی برسی مناتے ہیں۔ جس میں ممبئی اور اس کے اطراف کے بڑے بڑے شعراء اور ادباء شرکت کرتے ہیں۔ آوارہ سلطان پوری کے پڑوسی اور دوستوں میں تھے۔ جمیل مرصع پوری کہتے ہیں: ’’اردو کی ترقی کے لئے جدوجہد کرنا بڑا اہم کارنامہ ہے ورنہ اس عمر میں تو عموماً تھک ہار کر سوجاتے ہیں‘‘۔ پیشے کے اعتبار سے بھی وہ فن کارڈیزائنر ہیں۔ اب زیادہ عمر کی وجہ سے اپنا کام نہیں کر پاتے ہیں۔ ندیم صدیقی ان کے صاحبزادوں میں سے ہیں۔ جو ادبی دنیا میں کافی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ شکیل بدایونی سے کافی قریب رہے شکیل کی غریبی کا زمانہ بھی جمیل صاحب کو اچھی طرح یاد ہے۔ آج بھی مشاعرے میں پڑھتے ہیں اور نئی نسل کے شعراء ان کے اشعار بڑے احترام سے سنتے ہیں اور داد دیتے ہیں کیوں کہ انہوں نے زمانے کے ساتھ چلنا سیکھا ہے۔

’’میں وہ سنی ہوں جمیلؔ قادری مرنے کے بعد‘‘ کے لیے مشہور

جامی

1414 -1492 ہرات

صوفیانہ شعر کہنے والا ایک عالمی شاعر اورممتاز مصنف

افقر موہانی کے شاگرد رشید

عہد شاہ جہانی کا معروف شاعر

حاجی وارث علی شاہ کے چہیتے مرید جنہوں نے پیرومرشد کے حکم پر جنگل میں زندگی گذاری

شاہ اکبر داناپوری کے شاگرد رشید

حضرت مولانا امجد برہان پوری کے صاحبزادے

نور نوحی کے صاحبزادے اور بزم نور ، آرہ کے سرپرست

بولیے