بابا فرید کے صوفی اقوال

دنیا کی محبت ایک چھپی ہوئی بلا ہے جو خامشی سے دل کو ویران کر کے بندے کو رب سے بیگانہ کر دیتی ہے۔


سکون چاہتا ہے؟ تو حسد چھوڑ دے، کہ حسد دل کا زہر ہے اور زہر میں آرام نہیں ہوتا۔

اپنے نفس سے نکل جانا، رب تک پہنچنے کا راستہ ہے، جو خود سے بچ گیا وہ خدا سے جا ملا۔


نفس کی خواہشات کو تسکین نہ دو، کیوں کہ یہ کبھی بھی سیراب نہیں ہوتا اور ہر نئی خواہش کے ساتھ اس کی طلب بڑھتی رہتی ہے۔

ہنسی مزاق اور غصہ کو کمزوری کی علامت سمجھو، کیوں کہ اصل قوت سکون اور ضبط میں ہے۔

نادان کو زندہ مت سمجھ، کہ جس دل میں معرفت کی روشنی نہ ہو، وہ جسم تو ہے مگر روح سے خالی ہے۔

دشمن کی تلخی پر ضبط کر، کہ غصہ تیرا سکون چھین کر تجھے کمزور کر دیتا ہے اور صبر تیری ڈھال ہے جو تجھے شکست سے بچاتی ہے۔


دوسروں کا بھلائی کرنا دراصل اپنی روح کو سکون دینا ہے، کیوں کہ جو تم دوسروں کے لیے کرتے ہو، وہ تمہارے اندر کی صفائی ہے۔

اگر عظمت کی آرزو ہے، تو وہ ان کے ساتھ رہ کر حاصل کر جو دنیا کی نظروں میں پست ہیں، کیوں کہ خدا کی نظر میں وہی بلند ہیں۔

وہ شخص بابرکت ہے جسے اپنی لغزشوں کا اتنا ادراک ہو کہ وہ دوسروں کی کمزوریوں کو ظاہر نہ کرے، کیوں کہ یہ انسانیت کی اصل ہے۔

جھگڑے میں وہ حکمت نہیں جو صلح کی راہ چھوڑ دے کہ نرمی میں ہی انسانیت کی بلندیاں ہیں۔


جب خدا کی طرف سے کوئی آزمائش آئے، تو اسے قبول کرو، کیوں کہ وہ تمہیں اس کی قربت تک پہنچانے کا راستہ ہے۔





اپنی کمزوریوں پر نظر رکھو، کیوں کہ جو خود کو پہچانتا ہے، وہ خدا کو زیادہ قریب پاتا ہے۔





جس کام میں دل کی ناپسندیدگی ہو، اسے فوراً ترک کر دو، کیوں کہ دل کی صاف گوئی میں ہی سچائی ہے۔



اگر زندگی ہے تو علم میں ہے، اگر راحت ہے تو معرفت میں ہے، اگر شوق ہے تو محبت میں ہے اور اگر ذوق ہے تو ذکر میں ہے۔

درویش کو مر جانا بہتر ہے مگر لذت نفس کے لیے قرض نہ لے، کیوں کہ قرض اور توکل میں مشرق و مغرب کا فرق ہے۔









aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere