Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Wasif Ali Wasif's Photo'

واصف علی واصف

1929 - 1993 | لاہور, پاکستان

پاکستان کی مشہور روحانی شخصیت اور ممتاز مصنف

پاکستان کی مشہور روحانی شخصیت اور ممتاز مصنف

واصف علی واصف کے صوفی اقوال

515
Favorite

باعتبار

بیدار کردینے والا غم غافل کردینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔

بدی کی تلاش ہو تو اپنے اندر جھانکو، نیکی کی تمنا ہو تو دوسروں میں ڈھونڈو۔

وہ شخص اللہ کونہیں مانتا جو اللہ کا حکم نہیں مانتا۔

دنیا قدیم ہے لیکن اس کا نیا پن کبھی ختم نہیں ہوتا۔

دل سے کدورت نکال دو۔۔۔سکون مل جائے گا۔

لوگ دوست کو چھوڑ دیتے ہیں بحث کو نہیں چھوڑتے۔

بہترین کلام وہی ہے جس میں الفاظ کم اور معنیٰ زیادہ ہوں۔

اچھے لوگوں کا ملنا ہی اچھے مستقبل کی ضمانت ہے۔

ہمارے بعد دنیا ویسی ہی قائم و دائم رہے گی، جیسی ہمارے آنے سے پہلے تھی۔

ہم صرف زبان سے اللہ اللہ کہتے رہتے ہیں، اللہ لفظ نہیں، اللہ آواز نہیں، اللہ پکار نہیں، اللہ تو ذات ہے مقدس و ماورا، اس ذات سے دل کا تعلق ہے زبان کا نہیں، دل اللہ سے متعلق ہوجائے تو ہمارا سارا وجود دین کے سانچے میں ڈھل جانا لازمی ہے۔

اس کی عطاؤں پر الحمدلللہ اور اپنی خطاؤں پر استغفراللہ کرتے ہی رہنا چاہیئے۔

اتنا پھیلو کہ سمٹنا مشکل نہ ہو، اتنا حاصل کرو کہ چھوڑتے وقت تکلیف نہ ہو۔

ہم لوگ فرعون کی زندگی چاہتے ہیں اور موسیٰ کی عاقبت۔

انسان کا دل توڑنے والا شخص اللہ کی تلاش نہیں کرسکتا۔

بچہ بیمار ہو تو ماں کو دعا مانگنے کا سلیقہ خود بخود آ جاتا ہے۔

ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کر دیں۔

آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخص آپ کے اندر کا انسان ہے، اسی نے عبادت کرنا ہے اور اسی نے بغاوت، وہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا، اسی اندر کے انسان نے آپ کو جزا و سزا کا مستحق بنانا ہے، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ کا باطن ہی آپ کا بہترین دوست ہے اور وہی بدترین دشمن، آپ خود ہی اپنے لئے دشواری سفر ہو اور خود ہی شادابی منزل، باطن محفوظ ہوگیا، تو ظاہر بھی محفوظ ہوگا۔

دین و دنیا۔۔۔ جس شخص کے بیوی بچے اس پر راضی ہیں، اس کی دنیا کامیاب ہے اور جس کے ماں باپ اس پر خوش ہیں اس کا دین کامیاب۔

دعا کرنے سے بہتر ہے کہ کسی دعا کرنے والے کو پالیا جائے۔

دوسروں کی خامی آپ کی خوبی نہیں بن سکتی۔

خیال بدل سکتا ہے لیکن امر نہیں ٹل سکتا۔

دور سے آنے والی آواز بھی اندھیرے میں روشنی کا کام کرتی ہے۔

انسان لائحۂ عمل یا نظریے سے محبت نہیں کرسکتا، انسان صرف انسان سے محبت کر سکتا ہے۔

جو شخص اس لئے اپنی اصلاح کر رہا ہے کہ دنیا اس کی تعریف و عزت کرے تو اس کی اصلاح نہیں ہوگی، اپنی نیکیوں کا صلہ دنیاسے مانگنے والا انسان نیک نہیں ہو سکتا، ریا کار اس عابد کو کہتے ہیں جو دنیا کو اپنی عبادت سے مرعوب کرنا چاہے۔

چھن جانے کے بعد بہشت کی قدر ہوتی ہے۔

عروج اس وقت کو کہتے ہیں جس کے بعد زوال شروع ہوتا ہے۔

معاف کردینے والے کے سامنے گناہ کی کیا اہمیت؟ عطا کے سامنے خطا کا کیا ذکر؟

نا پسندیدہ انسان سے پیار کرو اس کا کردار بدل جائے گا۔

کسی کے احسان کو اپنا حق نہ سمجھ لینا۔

حضور کی بات پر کسی اور کی بات کو فوقیت دینا ایسے ہے جیسے شرک۔

کسی شے سے اس کی فطرت کے خلاف کام لینا ظلم ہے۔

انکار اقرار کی ایک حالت ہے، اس کا ایک درجہ ہے، انکار کو اقرار تک پہنچانا، صاحبِ فراست کا کام ہے، اسی طرح کفر کو اسلام تک لانا، صاحبِ ایمان کی خواہش ہونا چاہیئے۔

سننے والے کا شوق ہی بولنے والے کی زبان تیز کرتا ہے۔

خوش نصیب انسان وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش رہے۔

اپنی ہستی سے زیادہ اپنا نام نہ پھیلاؤ نہیں تو پریشان ہوجاؤگے۔

طالبِ علم ملک کے وارث ہوتے ہیں۔

کسی انسان کے کم ظرف ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی زبان سے اپنی تعریف کرنے پر مجبور ہو، دوسروں سے اپنی تعریف سننا مستحسن نہیں اور اپنی زبان سے اپنی تعریف عذاب ہے۔

گرو کی بات پر ایسے یقین کرو جیسے معصوم بچہ اپنے ماں باپ کی بات پر یقین کرتا ہے، اس بے یقینی کے دور میں یقین کا حاصل ہونا کرامت سے کم نہیں۔

حسن عشق کا ذوقِ نظر ہے اور عشق، قربِ حسن کی خواہش کا نام ہے۔

گرو کی بات ہی گُر ہے، گرو سے تعلق علم ہے، گرو کی خوشی فلاح ہے، گرو کی ناراضگی۔۔۔سے بچنا چاہیئے۔

چاندنی میں چاند نہیں ہوتا اور چاند پر چاندنی نہیں ہوتی۔

گناہوں میں مبتلا انسان کا دعاؤں پر یقین نہیں رہتا۔

آج کا انسان صرف مکان میں رہتا ہے اس کا گھر ختم ہوگیا۔

سب سے پیارا انسان وہ ہوتا ہے جس کو پہلی ہی بار دیکھنے سے دل یہ کہے۔ ’’میں نے اسے پہلی بار سے پہلے بھی دیکھا ہوا ہے‘‘۔

جھوٹا آدمی کلامِ الٰہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہوگا، صداقت بیان کرنے کے لئے صادق کی زبان چاہیئے۔۔۔بلکہ صادق کی بات ہی صداقت ہے، جتنا بڑا صادق اتنی بڑی صداقت۔

جس نے اپنی زندگی کو قبول کرلیا اس نے خدا کو مان لیا۔

توبہ جب منظور ہوجاتی ہے تو یادِ گناہ بھی ختم ہوجاتی ہے۔

تسلیم کے بعد تحقیق گمراہ کر دیتی ہے۔

ولیوں کی صحبت میں رہو۔۔۔۔سکون مل جائے گا۔

علم سے پہلے کا زمانہ جہالت کا دور کہلاتا ہے۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے