Sufinama
Aarzu Lakhnavi's Photo'

آرزو لکھنوی

1873 - 1951 | لکھنؤ, بھارت

مختلف خوبیوں والا ایک عظیم شاعر

مختلف خوبیوں والا ایک عظیم شاعر

آرزو لکھنوی کا تعارف

تخلص : 'آرزو'

اصلی نام : سید انور حسین

پیدائش : 01 Mar 1873 | لکھنؤ, اتر پردیش

وفات : 01 Apr 1951 | سندھ, پاکستان

آرزوؔ لکھنؤی کا نام سید انور حسین تھا۔ ان کی پیدائش 18 ذی الحجہ 1289ھ موافق 16 فروری 1873ء کو لکھنؤ کے ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی،ان کی والدہ آمنہ بیگم علمی وادبی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، آرزو کے جد اعلیٰ میر شہام علی خاں عہد شاہ جہانی میں ہرات (ایران) سے ہندوستان آۓ اور اجمیر شریف میں سکونت اختیارکی تھی۔ ان کے بڑے صاحبزادے میر جان علی عرف تہور خاں نے شاہی فوج میں ملازمت اختیار کی جہاں ان کی وفاداری اور بہادری کی وجہ سے ان کے مراتب بڑھے، پھر وہ اجمیر شریف کی سکونت ترک کرکے لکھنؤ میں آبسے۔ چونکہ ان کے والد میر ذاکر حسین یاس ابن میر محمد علی بھی شاعر تھےاس لئے آرزو بچپن سے ہی شعرو شاعری کی جانب راغب ہو گئے۔ فن شاعری میں شاگردی جلال لکھنؤی کی اختیار کی۔ آرزو لکھنوی کی شخصیت ہشت پہل تھی۔ انہوں نے شاعری کی تمام اصناف غزل ، مرثیہ ، نعت ، سلام ، قصیدہ ، مثنوی، گیت اور رباعی میں طبع آزمائی کی ۔ شعر وسخن کے علاوہ نثر پر بھی انہیں زبردست قدرت حاصل تھی جہاں انہوں نے اسٹیج ڈرامے اوربر جستہ مکالمے لکھے وہیں انہوں نے دو درجن سے زائد فلموں کے گانے بھی تحریر فرمائے ۔ آرزو لکھنوی کوبچپن سے ہی شاعری کا اعلی ذوق تھا، کم عمری میں ہی ایک استاد نے ان کو ایک مصرعہ طرح دے کر چیلنج کیا کہ اس طرح میں زلف کی رعایت کے بغیر دو دن کے اندر ایک شعر بھی کہہ دو تو ہم تمہیں شاعر مان لیں گے ۔ انہوں نے محض چند گھنٹوں میں گیارہ اشعار پر مشتمل غزل کہہ کر سنا دی ۔ سب عش عش کر نے لگے ۔ رقیب اپنے بہت ہیں یہ اس کی ہے تعبیر کہ روز آکے ڈراتے ہیں ہم کو خواب میں سانپ ہمارا درد جگر آسماں کا تیر شہاب مقابلے کو چلے سانپ کے جواب میں سانپ آرزو لکھنوی کے کلام میں ندرت ہے ۔ انہوں نے اردو شاعری کو اپنی زمین سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے ان کی شاعری اس سر زمین سے پیوست نظر آتی ہے، پروفیسر آل احمد سروران کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں. "غزل کی زبان کو بول چال کی زبان سے قریب لا کر شاعر نے یہ واضح کیا ہے کہ شاعر کی بولی دنیا والوں کی بولی سے الگ نہیں ہو تی اور نہ وہ قدیم بحروں کی قید میں ہمیشہ اسیر رہتی ہے اسی لئے آرزو کے اشعار میں سادگی اور پر کاری ہے" آرزو صوفیوں کی خانقاہوں اور درگاہوں سے ہمیشہ وابستہ رہے۔ ان کی غزلیں قوالیوں میں بھی گائ جاتی تھیں۔ 6 جنوری 1951ء کو آرزو ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے کراچی، پاکستان گئے تھے۔ پاکستان میں ان کا قیام بہت ہی مختصر رہا اور 9 رجب المرجب 1370ھ مطابق 16 اپریل 1951ء کو کراچی میں ہی ان کا انتقال ہو گیا اور وہیں ان کی تدفین عمل میں آئی۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے