Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
noImage

ابو حفص حداد

- 877 | نیشاپور, ایران

شیخ عبداللہ ماوردی کے مرید اور صاحبِ ریاضت و عبادت و مروت و فتوت بزرگ تھے، جنہوں نے اپنے قلب کی صفائی اور روح کی تطہیر کے ذریعے حقیقت تک رسائی حاصل کی، ان کی تعلیمات میں زہد، توبہ اور خدا کے ساتھ تعلق کی گہری اہمیت تھی اور وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو دنیا کی فانی رنگینیوں سے دور رہ کر خدا کی رضا کے لیے جینے کی ترغیب دیتے تھے۔

شیخ عبداللہ ماوردی کے مرید اور صاحبِ ریاضت و عبادت و مروت و فتوت بزرگ تھے، جنہوں نے اپنے قلب کی صفائی اور روح کی تطہیر کے ذریعے حقیقت تک رسائی حاصل کی، ان کی تعلیمات میں زہد، توبہ اور خدا کے ساتھ تعلق کی گہری اہمیت تھی اور وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو دنیا کی فانی رنگینیوں سے دور رہ کر خدا کی رضا کے لیے جینے کی ترغیب دیتے تھے۔

ابو حفص حداد کے صوفی اقوال

باعتبار

دنیا ایک ایسی منزل ہے جو ہمیشہ خدا کے ساتھ سرکشی میں مشغول رہتی ہے۔

اپنی عبادات اور روحانی مشقوں پر بھروسہ نہ رکھ بلکہ صرف اس کی رحمت و کرم پر توکل کر۔

فقر تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ انسان دینے کو لینے پر ترجیح نہ دے، سخاوت یہ نہیں کہ دولت مند، غریب کو دے، سخاوت یہ ہے کہ جو کچھ نہیں رکھتا، وہ دولت مند کو دے۔

خوف خدا کا کوڑا ہے جس کے ذریعے وہ ان لوگوں کو سزا دیتا ہے جو سرکشی کے ساتھ اس کی درگاہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔

دروازے پر قائم رہو تاکہ خدا کے دروازے تم پر کھلیں۔

گناہ کفر تک لے جاتے ہیں۔

انسان کا توبہ میں کوئی حصہ نہیں ہے، کیوں کہ توبہ خدا کی طرف سے انسان کی طرف ہے، نہ کہ انسان کی طرف سے خدا کی طرف۔

نفس مکمل تاریکی ہے، نفس کا چراغ اس کا راز ہے، اس چراغ کی روشنی کامیابی ہے، جو شخص اپنے رب سے کامیابی نہیں پاتا، اس کا راز تاریکی ہی ہوتا ہے، یہاں تاریکی سے مراد یہ ہے کہ بندے کا راز وہ ہے جو اس کے اور خدا کے درمیان ہے۔

عبودیت بندے کی حسین زینت ہے، جو شخص عبودیت کو چھوڑ دیتا ہے، وہ جمال سے محروم ہو جاتا ہے۔

تصوف مکمل طور پر نظم و ضبط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ طالب علم کو اپنی دنیاوی خواہشات کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے باطنی نفس کو پہچان سکے۔

چالیس سال تک مجھے یقین تھا کہ خدا مجھے اپنی غضب کی نظر سے دیکھ رہا ہے اور میرے اعمال نے اس بات کی تصدیق کی۔

خدا کی طرف رجوع کرو جیسے ایک غریب بھکاری امیر سے خیرات کی درخواست کرتا ہے۔

وہ اندھا ہے جو تخلیق کے ذریعے خالق کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے، کاش کہ وہ خالق کے ذریعے تخلیق کو پہچانتا اور اس کا عرفان حاصل کرتا۔

فقر وہ باندی ہے جو انسان کو خدا کی قربت تک لے جاتی ہے۔

جب تم لوگوں کو تعلیم دے رہے ہو تو اپنے دل اور روح کو نصیحت کرنے والا بنو اور ان کے تمہارے ارد گرد جمع ہونے سے فریب نہ کھاؤ، کیوں کہ وہ تمہاری ظاہری حالت پر تو دھیان دیتے ہیں، جب کہ خدا تمہاری باطنی حالت پر نظر رکھتے ہیں۔

جب سے میں نے خدا کو پہچانا ہے، نہ تو سچائی میرے دل میں داخل ہوئی ہے اور نہ جھوٹ۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے