ابو حفص حداد کے صوفی اقوال


اپنی عبادات اور روحانی مشقوں پر بھروسہ نہ رکھ بلکہ صرف اس کی رحمت و کرم پر توکل کر۔

فقر تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ انسان دینے کو لینے پر ترجیح نہ دے، سخاوت یہ نہیں کہ دولت مند، غریب کو دے، سخاوت یہ ہے کہ جو کچھ نہیں رکھتا، وہ دولت مند کو دے۔

خوف خدا کا کوڑا ہے جس کے ذریعے وہ ان لوگوں کو سزا دیتا ہے جو سرکشی کے ساتھ اس کی درگاہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔



انسان کا توبہ میں کوئی حصہ نہیں ہے، کیوں کہ توبہ خدا کی طرف سے انسان کی طرف ہے، نہ کہ انسان کی طرف سے خدا کی طرف۔

نفس مکمل تاریکی ہے، نفس کا چراغ اس کا راز ہے، اس چراغ کی روشنی کامیابی ہے، جو شخص اپنے رب سے کامیابی نہیں پاتا، اس کا راز تاریکی ہی ہوتا ہے، یہاں تاریکی سے مراد یہ ہے کہ بندے کا راز وہ ہے جو اس کے اور خدا کے درمیان ہے۔

عبودیت بندے کی حسین زینت ہے، جو شخص عبودیت کو چھوڑ دیتا ہے، وہ جمال سے محروم ہو جاتا ہے۔

تصوف مکمل طور پر نظم و ضبط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ طالب علم کو اپنی دنیاوی خواہشات کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے باطنی نفس کو پہچان سکے۔

چالیس سال تک مجھے یقین تھا کہ خدا مجھے اپنی غضب کی نظر سے دیکھ رہا ہے اور میرے اعمال نے اس بات کی تصدیق کی۔


وہ اندھا ہے جو تخلیق کے ذریعے خالق کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے، کاش کہ وہ خالق کے ذریعے تخلیق کو پہچانتا اور اس کا عرفان حاصل کرتا۔


جب تم لوگوں کو تعلیم دے رہے ہو تو اپنے دل اور روح کو نصیحت کرنے والا بنو اور ان کے تمہارے ارد گرد جمع ہونے سے فریب نہ کھاؤ، کیوں کہ وہ تمہاری ظاہری حالت پر تو دھیان دیتے ہیں، جب کہ خدا تمہاری باطنی حالت پر نظر رکھتے ہیں۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere