ابوالحسن خرقانی کے صوفی اقوال

اگر رب کا ایک قطرہ فیض بھی نصیب ہو جائے تو نہ دنیا کی کوئی چاہ باقی رہتی ہے نہ کسی سے بات کی حاجت نہ کسی کی سننے کی خواہش۔

کسی سائل کو در سے خالی نہ لوٹاؤ، کچھ نہ کچھ ضرور دو، چاہے اس کے لیے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔

ہر کوئی چاہتا ہے کہ دنیا سے کچھ ساتھ لے جائے مگر اس راہِ ابدی میں صرف فنا فی اللہ یعنی نفس کی نفی ہی گزر پاتی ہے۔


اگر کسی قوم میں ایک شخص بھی معرفت و قربِ الٰہی پا لے تو خدا اس کے صدقے پوری قوم کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔

روحانیت کی آخری تین منزلیں یہ ہیں۔
پہلی بندہ اپنے آپ کو ویسا جانے جیسا خدا جانتا ہے۔
دوسری بندہ خدا کا ہو جائے اور خدا اس کا۔
تیسری بندہ خود سے مٹ جائے اور صرف وہی باقی رہے۔

جب بندہ رب کا نام لیتا ہے، زبان اتنی جل جاتی ہے کہ پھر وہ اسے دوبارہ نہیں کہہ سکتی، اگر زبان پھر سے وہی نام دہراتی ہے تو دراصل وہ اس کی حمد بیان کر رہی ہوتی ہے۔

دنیا کے لوگ اپنی تقدیر میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہی پاتے ہیں مگر ولی وہ کچھ پاتا ہے جو اس کی تقدیر کی تحریر میں نہیں ہوتا۔

خدا کے کچھ عقیدت مند بندے ایسے ہیں جو اس کے محبوب ہیں، جب وہ اس کا نام لیتے ہیں تو ہوا کے پرندے اور جنگل کے جانور خاموش ہو جاتے ہیں، آسمان کے فرشتے لرز اٹھتے ہیں اور زمین و آسمان روشن ہو جاتے ہیں، ان کے زبان سے نامِ الٰہی کا اتنا جلال ہوتا ہے کہ زمین تک لرز اٹھتی ہے۔

خدا کی محبت اس شخص کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جس کا دل اس کی محبت میں جل کر راکھ ہو جائے۔


راہِ حقیقت میں ایک قدم بھی خدا کی مدد کے بغیر کامیابی سے نہیں اٹھایا جا سکتا، انسان اپنی ذاتی کوشش اور محنت سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔


خدا کو اپنے ساتھ دیکھنا فنا ہے اور خدا کو صرف دیکھنا اور اپنے آپ کو نہ دیکھنا بقا ہے۔

خدا کی صحبت اختیار کرو اور دنیا کی صحبت کو ترک کرو، کیوں کہ انسان کو دوستوں کی صحبت میں رہنا چاہیے اور خدا سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں۔


سب سے بڑی عبادت خدا کا ذکر اور یاد ہے، اس کے بعد زندگی کی پاکیزگی، صدقہ اور زہد آتے ہیں۔

دنیا میں چیزیں پہلے تلاش کی جاتی ہیں اور پھر حاصل کی جاتی ہیں مگر خدا سب سے پہلے ملتا ہے پھر اسے تلاش کیا جاتا ہے۔

جب خدا کا بندہ عدم (نستی) میں مقیم ہوتا ہے، تو وہ خدا کی موجودگی کے لباس سے آراستہ ہوتا ہے۔

یہ پردے ہی ہیں جو ماضی، حال اور مستقبل کے وقت کو تمہاری نظر سے چھپا دیتے ہیں، جب یہ پردے ہٹا دیے جائیں تو سب کچھ نظر آتا ہے۔

دیدارِ الٰہی ایسا ہے کہ جب نصیب ہو جائے تو چوبیسوں گھنٹے اس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

جب لوگ اخلاص کے ساتھ رب کو تلاش کرتے ہیں اور خود کو بھول جاتے ہیں، تب خدا ملتا ہے۔


جو شخص خدا کے لیے اپنی عزت کو قربان کر دیتا ہے، خدا اسے اپنی عزت کا خلعت پہنا دیتا ہے۔

جب رب کسی بندے کو راہِ حق پر لگا دیتا ہے تو وہ مقامِ توحید میں اس کے ساتھ سکونت اختیار کر لیتا ہے اور اس کے حال سے خدا کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا۔

صوفی کو سورج یا چاند کے نور کی حاجت نہیں ہوتی، کیوں کہ اس کے ساتھ رب کا جلوہ ہوتا ہے جو تمام سیاروں کے نور سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔


جو کوئی خدا کے فضل سے اسے دیکھتا ہے، وہ مخلوق کو نہیں دیکھتا جو دیدارِ الٰہی کو پا لیتا ہے، وہ خود کو بھول جاتا ہے۔

روحانی مشقیں اس وقت تک کرتے رہو جب تک روحانی مشقیں خود تمہیں ترک نہ کر دیں۔

جتنا زیادہ تم اپنے استاد کی خدمت کرو گے، اتنا ہی تم روحانی طور پر بلند ہو گے۔

اگر اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی تم نے خدا کو تکلیف پہنچائی ہو، تو تمہیں اپنی پوری زندگی اس کی معافی طلب کرنی چاہیے، کیوں کہ اگرچہ وہ اپنے فضل سے تمہیں معاف کر دے گا پھر بھی تمہیں ہمیشہ دل میں غم ہونا چاہیے کہ تم نے خدا کو ناراض کیا اور اس کے احکام کی پیروی نہیں کی۔

خدا کی حقیقت شناسی کا راستہ صرف ان خوش نصیبوں کا حق ہے جو خالص محبت میں مدہوش ہیں، کیوں کہ خدا سے وجد میں بات کرنا واقعی ایک لذت ہے۔

ایک آدمی کو اپنی روحانی مشقوں کو مکمل چالیس سال تک جاری رکھنا چاہیے، تب جا کر وہ صحت مند نتائج کی توقع کر سکتا ہے، زبان کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے دس سال، جسم کی اضافی چربی کو کم کرنے کے لیے دس سال، دل کی بے چینیوں کو درست کرنے کے لیے دس سال اور آخری دس سال باقی تمام بے ترتیبیوں کو درست کرنے کے لیے درکار ہیں۔
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere