افقر موہانی کا تعارف
آپ کا اصلی نام سید حسین تھا۔ تخلص افقر اور تاریخی نام ظفر وارث تھا۔ 1887ء میں موہان میں پیدا ہوئے۔ "تذکرہ شعرائے وارثیہ" میں آپ کو افقرؔ وارثی سے متعارف کرایا گیا ہے جب کہ افقرؔ موہانی کے نام سے بھی معروف ہیں۔ آپ کا تعلق موہان کے خاندان پیرزاد گان سے تھا۔ علوم رسمیہ اور درسیہ سے بہرہ یاب تھے۔ عربی فارسی اور علم عروض کے ماہر تھے ۔ اوائل عمر ہی سے مزاج رندانہ اور صوفیانہ رکھتے تھے۔ جوں جوں فکرو شعور میں اضافہ ہوتا گیا اس سےمذاق میں نکھارآتا گیا۔ "وحدت الوجود'' آپ کی تصانیف میں سے ہے۔ آپ کی غزلوں کا مجموعہ بھی "فردوس معانی" کے نام سے شائع ہو چکاہے۔ افقؔرکے کلام میں لکھنؤ کے بجائے دہلوی رنگ کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ ان کا انداز بیان مومنؔ کے انداز بیان سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ اسی سبب سے ان کے کلام میں داخلیت کی گہرائیاں موجود ہیں۔ ایک شعر میں مومنؔ سے اپنی عقیدت کا اظہار فرماتے ہیں۔ کلام میر ؔو مرزؔا قابل صد ناز ہے افقر مگر مومنؔ کا انداز بیاں کچھ اور کہتا ہے افقر کے کلام پر مومنؔ کے علاوہ ایک اور خدا داد شخصیت اور زیادہ اثر انداز ہوئی جس نے ان کی زندگی کے دھارے کو ہی موڑ دیا۔ وہ کوئی اور نہیں حاجی وارث علی شاہ تھے جن سے بیعت ہو ئے۔ ابتدا ہی سے ان کے خمیر میں صوفیانہ رنگ حاوی تھا پھر حاجی وارث علی شاہ کی محبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ دیوہ کے عرس میں صدق دل اور خلوص و عقیدت کے ساتھ شرکت کرتے اور وارث علی شاہ کے حضور میں عقیدت کے نذرانے پیش کرتے۔ ہندوستان میں تصوف کے پس منظر میں افقر وارثی موہانی کی شاعری کا جائزہ لینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افقر خالص تصوف کے شاعر ہیں اور ان کے رگ و پے میں خون کے بجائے تصوف کا رنگ دوڑ رہا ہے۔ لہٰذا ان کی شاعری خاص صوفیانہ شاعری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام میں کم مقبول ہوئے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ افقرؔ فکر و فن کے لحاظ سے اور نازک خیالی اور بلند پروازی کے اعتبار سے اصغرؔ گونڈوی، فانیؔ بدایونی، حسرتؔ موہانی، شاہ محسن داناپوری، سیمابؔ اکبرآبادی نیز دوسرے بلند پایہ اپنے تمام معاصرین سے کم مرتبہ نہیں ہیں بلکہ شاعری کے بعض اہم مقامات میں وہ ان سے بھی بالاتر نظر آتے ہیں۔ افقر ؔموہانی قدیم تصوف کے شاعر کے پیروکار ہیں۔ انہوں نے تصوف کی اپنی الگ ایک دنیا آباد کی۔ نہ وہ اقبالؔ کے رنگ وہنگ سے متاثر ہوئے اور نہ وہ اشترا کی شعرا کی آگ اور خون سے مرعوب ہوئے بلکہ وہ اپنی خانقاہ میں بیٹھ کر جلوۂ جاناں کا مشاہدہ کرتے رہے اور اپنے خون و جگر سے تصوف کی وادی میں حسن و جمال کے پھول کھلاتے رہے۔ اول و ابتداہی سے ان کے خمیر میں صوفیانہ رنگ شامل تھا۔ آپ کا وصال 1971ء کو لکھنو میں ہوا۔