افقر موہانی کے اشعار
گزر جا منزل احساس کی حد سے بھی اے افقرؔ
کمال بے خودی ہے بے نیاز ہوش ہو جانا
خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی خیال توبہ رہے گا کب تک
کہ تیرا رند خراب افقرؔ ولی نہیں پارسا نہیں ہے
چمک اٹھی ہے قسمت ایک ہی سجدہ میں کیا کہنا
لئے پھرتا ہے پیشانی پہ نقش آستاں کوئی
تری محفل میں جو آیا بانداز عجب آیا
کوئی لیلیٰ ادا آیا کوئی مجنوں لقب آیا
اکثر پلٹ گئی ہے شب انتطار موت
مرنے نہ درد دل نے دیا تا سحر مجھے
خرد ہے مجبور عقل حیراں پتہ کہیں ہوش کا نہیں ہے
ابھی سے عالم ہے بے خودی کا ابھی تو پردہ اٹھا نہیں ہے
وہ بہار عمر ہو یا خزاں نہیں کوئی قابل اعتنا
نہ یقیں تھا مجھ کو سرور پر نہ ہے اعتبار خمار پر
اسی کو کامیاب دید کہتے ہیں نظر والے
وہ عاشق جو ہلاک حسرت دیدار ہو جائے
غم دوراں کا پھر کیا ذکر افقرؔ
مئے رنگیں کا جب پیمانہ آیا
یہ ہے مختصر فسانہ مری زندگی کا ناصح
غم عاشقی فقط تھا غم دو جہاں سے پہلے
اب نہ وہ گل رہے اور نہ وہ گلستاں
چاندنی چار دن کی مگر ہو گئی
اہل جفا نے پھر نہ اٹھایا جفا سے ہاتھ
لذت شناس ظلم و ستم دیکھ کر مجھے
نہیں موقوف دنیا ہی میں چرچا خون ناحق کا
سر محشر بھی قاتل کو پشیماں کر کے چھوڑوں گا
دواں ہو کشتیٔ عمر رواں یوں بحر ہستی میں
کہیں ابھری کہیں ڈوبی کہیں معلوم ہوتی ہے
اس کی ناکامئ قسمت پر کہاں تک روئیے
غرق ہو جائے سفینہ جس کا ساحل کے قریب
ہزار رنگ زمانہ بدلے ہزار دور نشاط آئے
جو بجھ چکا ہے ہوائے غم سے چراغ پھر وہ جلا نہیں ہے
گزر جا منزل احساس کی حد سے بھی اے افقرؔ
کمال بے خودی ہے بے نیاز ہوش ہو جانا
جذبات کا بیاں ہے شرح غم نہاں ہے
مقبول ہو نہ کیوں پھر افقرؔ کلام تیرا
بہار آنے کی آرزو کیا بہار خود ہے نظر کا دھوکا
ابھی چمن جنت نظر ہے ابھی چمن کا پتا نہیں ہے
ملی سجدہ کی اجازت جوں ہی پاسباں سے پہلے
مجھے مل گئی خدائی تیرے آستاں سے پہلے
ہوا یہ معلوم بعد مدت کسی کی نیرنگیٔ ستم سے
ستم باندازۂ ادا ہے ادا بقدر جفا نہیں ہے
یہ آہیں ہیں میری یہ نالے ہیں میرے
جنہیں آسماں آسماں دیکھتے ہیں
کیسی بہار کیسا نشیمن کہاں کے گل
روتے ہیں بال و پر مجھے اور بال و پر کو میں
ازل سے ہے آسماں خمیدہ نہ کر سکا پھر بھی ایک سجدہ
وہ ڈھونڈھتا ہے جس آستاں کو وہ آستانہ ملا نہیں ہے
کہیں ناکام رہ جائے نہ ذوق جستجو اپنا
عدم سے بھی خیال یار ہم آغوش ہو جانا
وہاں بھی کر لیا سجدہ خدا کو
کوئی جب راہ میں بت خانہ آیا
خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی خیال توبہ رہے گا کب تک
کہ تیرا رند خراب افقرؔ ولی نہیں پارسا نہیں ہے
تجھے معلوم کیا اے خواب ہستی دیکھنے والے
وہی ہستی ہے ہستی جو نثار یار ہو جائے
بہار آنے کی آرزو کیا بہار خود ہے نظر کا دھوکا
ابھی چمن جنت نظر ہے ابھی چمن کا پتا نہیں ہے
خدا رکھے عجب کیف بہار کوئے جاناں ہے
کہ دل ہے جلوہ ساماں تو نظر جنت بہ داماں ہے
اب اس منزل پہ پہنچا ہے کسی کا بے خود الفت
جہاں پر زندگی و موت کا احساس یکساں ہے
ہمیں مل گیا ہے ترا آستانہ کہیں اب نہ آنا کہیں اب نہ جانا
مقدر سے بگڑا ہو جس کے زمانہ یہاں اپنی بگڑی وہ قسمت بنا لے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere