آغا محمد داود کا تعارف
آغا محمد داؤد ابن آغا محمد حیدر ابن آغا محمد قادر حیدرآباد کی روحانی شخصیت تھے۔ ان کا تخلص صہو ہے۔ صہو حیدرآبادی کی پیدائش 1248ھ میں ہوئی اور وصال 15 ربیع الاول 1324ھ کو 67 برس کی عمر میں ہوا۔ آپ کے اجداد قطب شاہی کے عہد میں صاحب منصب و فوج تھے۔ سلطنت آصفیہ کے ابتدائی دور میں قدیم صوبہ برار میں دو موضع پٹیل گاؤں اور بھالکی آپ کی جاگیر تھی۔ اس کےعلاوہ ڈھائی سو سوار، دو ہاتھی معہ لوازمہ عطیہ سلطانی سے بھی سرفراز تھے۔ جب ملک برار برٹش گورنمنٹ کو تفویض ہوا تو آپ کی جاگیر بھی اس میں شامل ہوگئی۔ آغا کا لقب آپ کا خاندانی ہے۔ آپ کی طبیعت بچپن سے ہی علم تصوف کی طرف راغب اور فقرا دوست واقع ہوئی تھی۔ کم سخن، شریف النفس اور بڑے مہمان نواز تھے۔
حضرت شاہ اکبر داناپوری لکھتے ہیں کہ "یہ صاحب جوان صالح، بڑے ریاضتی، کم سخن بھولے بھالے، سیدھے سادھے، درویش ہیں۔ فقیر مؤلف کے ساتھ آپ کا ربط قلبی ہے۔ شورش کے وقت آپ کی کیفیت و نسبت متعدی ہوجاتی ہے چوں کہ ابھی جوان ہیں، نسبت ابھی لطافت کی طرف کم مایل ہے۔ بشرے سے کیفیت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ آپ کو آغاز طلب میں جذب ہوگیا تھا اور اب آپ کو جذب مع السکوت ہے۔ آپ کو بیعت و خلافت جناب محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ مرید حضرت شیخ جی حالی وخلیفہ حضرت محمد شفیع جمعدار صاحب قدس سرہٗ سے ہے۔ آپ کے چند پیر بھائیوں سے بھی مجھ سے ملاقات ہوئی جن کے نام نامی یہ ہیں، نواب مستحکم جنگ بہادر، نواب تاج الدین خاں بہادر مرحوم، نواب اکرام جنگ بہادر۔ یہ لوگ فقیر سے نہایت اخلاق کے ساتھ ملے اور نواب تاج الدین خان بہادر مرحوم نے مری دعوت بھی کی تھی۔ امرائے حیدرآباد بڑے بھولے بھالے لوگ ہیں۔ چوں کہ ان کے خیالات قدیم سچے لوگوں کے سے ہیں، ان میں ذرا فریب اور مکر وغیرہ کی ہوا نہیں لگی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شہر کو تمام آفات ارض و سما سے محفوظ رکھے، آمین ثم آمین"( تتمہ نجات قاسم یعنی نذر محبوب)
آغا محمد داؤد صہو حیدرآبادی 1263ھ میں حضرت شاہ محمد حسن ابوالعلائی حیدرآبادی کے مریدان بااخلاص میں شامل ہوئے اور ابوالعلائی نسبت سے مالا مال ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کرامت شاہ کے آوردہ میں منصب دار امتیازی تھے جب آپ کے والد کا انتقال ہوا تو وہ آسامی آپ کے نام ہوئی اور خلوت شاہی میں خاص مسند سلطانی پر مامور ہوئے چوں کہ آپ کی طبیعت صغر سنی سے ہی کتب و شغل باطنی اور تصوف کی طرف زیادہ راغب تھی، ان دنیوی بکھیڑوں سے آپ بیزار تھے۔ دو سال مجاہدہ میں جذبہ ہوگیا اور اپنے پیرو مرشد کی صلاح و مشورہ سے ترک ملازمت فرماکر عالم وجدان و جذبات میں سالہا سال تک بادیہ پیمائی اختیار کی اور صحرا صحرا کوہ بہ کوہ گشت فرمانے لگے۔ صہو حیدرآبادی اپنی مجلس میں لوگوں کو ہدایت کی تلقین کرتے تھے۔ اللہ والی گفتگو کیا کرتے۔ اکابرین کے ملفوظات و مکتوبات کا حوالہ پیش کیا کرتے اور پھر مثال دے کر اس کی وضاحت کرتے کہ سامعین آسانی سے سمجھ لے۔ صہو کبھی کبھی شعر وسخن کی جانب بھی دلچسپیاں ظاہر کرتے تھے اور تھوڑا تھوڑا کہتے کہتے ایک مکمل دیوان تیار کر بیٹھے۔ انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے اور کوشش کی ہے کہ ان کا کلام ایرانی شعرا کے طرز پر ہو۔