عاقل خان رازیؔ کا تعارف
عاقل خاں رازیؔ سترہویں صدی کے اوائل میں مغل بادشاہ جہاں گیر کے عہد میں دکن میں پیدا ہوئے اور خود رازیؔ نے اپنی مثنوی ’’مہر و ماہ‘‘ میں اس کی وضاحت کی ہے۔
بہ ہندوستان اگر ہستم سخن باف
و لیکن تار و پورم ہست در خواف
مذکورہ شعر کی روشنی میں جس میں اس امر کی وضاحت ہے کہ رازیؔ کا تاروپود یعنی اس کی نسبت خواف (خراسان) سے اور وہ اصلاً ہندوستانی شاعر ہے، زیادہ تر تذکروں میں ان کا نام میر عسکری درج کیا گیا ہے جب کہ رازیؔ کی تصنیف میں ’’ثمر الحیات‘‘ میں میر علی عسکری تحریر ہے، انہوں نے اپنے نام اور تخلص کے متعلق ایک شعر لکھ کر خود اس کی وضاحت کر دی ہے۔
مرا در دفتر دیوان ایام
تخلص رازیؔ است و عسکری نام
عاقل خاں رازیؔ چوں کہ حضرت برہان الدین راز الٰہی کے حلقۂ ارادت سے منسلک تھے، آپ کی نسبت سے اپنا تخلص انہوں نے رازیؔ انتخاب کیا۔
آپ کا تعلق ایران سے تھا اور خراسان کے ایک گاؤں خواف کے باشندہ تھے، آپ کے والد کا نام سید محمد تقی تھا، چوں کہ وہ آپ کا تعلق خواف سے اس وجہ سے ان کو لوگ خوافی کے نام سے بھی جانتے ہیں، اپنی تصنیف ’’ثمرات الحیات‘‘ میں انہوں نے اپنے والد کا نام محمد قاسم بھی لکھا ہے یعنی ان کے والد کے دو نام تھے، رازیؔ کی دو اولادیں تھی ایک لڑکا اور لڑکی، شکراللہ خاں جو کہ صاحبِ دیوان شاعر تھے اور ’’شرح مثنوی مولوی‘‘ کے مصنف بھی تھے رازی کے داماد تھے۔
رازیؔ علوم دینی کے بعد تصوف کی طرف مائل ہوئے اور علوم روحانی کے حصول کے لیے اس وقت کے مشہور معروف سلسلۂ شطاریہ کے ایک بزرگ حضرت برہان الدین رازی الٰہی کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے اکتسابِ فیض حاصل کیا، حضرت برہان الدین راز الٰہی عہد اورنگ زیب کے ایک عارف باللہ صوفی تھے، رازیؔ نے اپنی تصنیف ’’ثمرات الحیات‘‘ میں اپنے روحانی استاد راز الٰہی کے حسب و نسل کے بارے تفصیلات بہم پہنچائی ہیں، ’’صحائف شرائف‘‘ میں رازیؔ کے چھ مکتوبات ملتے ہیں جن میں سے ایک ان کے مرشد کے نام ہے اس خط میں اس نے مرشد سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور اپنے خاندان کے دیگر افراد جو کہ ان سے بیعت تھے ان کے لیے دعا کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کی ملازمت کی اور اعلیٰ مرتبہ پر فائض رہ کر بادشاہ اور سلطنت کی خدمت کرتے رہے، آپ کا شمار عالم گیر کے خاص معتمدین اور مقربین میں ہوتا تھا اوروہ اورنگ زیب کے عہد شاہزادگی سے ہی ان کی ملازمت رہے 11سال معزولی کے علاوہ انہوں نے کل 49 سال کی مدت تک اورنگ زیب کی ملازمت کی، 1696 میں 80 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا، مرزا عبدالقادر بیدلؔ ان کے ہم عصر شاعروں میں سے تھے اور انہوں نے رازیؔ کی وفات پر ایک غزل تحریر کی جس میں اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اسے مختلف عناوین سے یاد کیا ہے، اس کے علاوہ ان کے ہم عصروں میں ممتاز صوفی شاعر جیسے غنیؔ کشمیری اور نعمت خاں عالی ؔبھی ہیں اس کے علاوہ محمد افضل سرخوشؔ اور ناصرؔ علی سرہندی جیسے عالم اور ممتاز شاعر بھی موجود تھے۔
نظم کی پانچ اور نثر کی پانچ کل دس تصانیف موجود ہیں، (نظم) مثنوی مہر و ماہ، شمع و پروانہ یا پدماوت، مرقع، دیوان، گل و بلبل (نثر) وقایع عالمگیری، ثمرات الحیات، کشکول، رسالہ امواج خوبی اور نغمات العشق یا نغمات الرازی۔