مرزا غالب کے صوفیوں کے مکتوب
شاہ کرامت حسین ہمدانی بہاری کے نام
شاہ صاحب! میری ایک رباعی سنو۔ کہتے ہیں کہ اب وہ مردمِ آزار نہیں عشاق کی پرسش سے اسے عار نہیں جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا کیوں کر مانوں کہ اس میں تلوار نہیں یہ رباعی عاشقانہ ہے مگر مضمون بالکل نیا ہے، باقی الفاظ کے معنی ظاہر ہیں۔ دوسری رباعی سنو۔ ہم
صوفی منیری کے نام
زبدۂ اولاد حضرت خیرالانام، قبلہ و کعبہ، مجموع اہل اسلام، حضرت پیر و مرشد عالی مقام کی خدمت میں فقیر غالبؔ کی بندگی قبول ہو، اپنے ابوالآبا کے بوڑھے غلام کو آپ نے اتنا کیوں شرمایا کہ وہ بے چارہ شرم سے پانی پانی ہوا جاتا ہے، کافی تھا ان اشعار کا بھیج
شاہ کرامت حسین ہمدانی بہاری کے نام
شاہ صاحب کو غالبِ ناتواں کا سلام پہنچے، صوفیوں کی اصطلاح میں محاورت و مسامرت اور مرتبے ہیں جو کاملین اور عرفا کو حاصل ہوتے ہیں، میرا شعر پڑھو۔ جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی مطلب یہ ہے کہ شاہدِ حقیقی کے ساتھ اس معمولی