نظیر اکبرآبادی کے اشعار
ادا سے ہاتھ اٹھنے میں گل راکھی جو ہلتے ہیں
کلیجے دیکھنے والوں کے کیا کیا آہ چھلتے ہیں
کہاں سے جوگی کی ادا اور کہاں عاشق کی پھبن
آتش غم سے جلا جب سے جلایا دل و جان
ہوس جو دل میں گزرے ہے کہوں کیا آہ میں تم کو
یہی آتا ہے جی میں بن کے بامہن آج تو یارو
کچھ بھیگی تالیں ہولی کی کجھ ناز ادا کے ڈھنگ بھرے
دل بھولے دیکھ بہاروں کو اور کانوں میں آہنگ بھرے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere