نظیر اکبرآبادی کا تعارف
نظیر اکبرآبادی کا نام سید ولی محمد اور نظیر تخلص تھا۔ 1735ء میں دہلی میں پیدا ہوئے، نظیر اپنے والدین کی تیرہویں اکلوتی نرینہ اولاد تھے، نظیر کی پیدائش پر بڑی دھوم دھام ہوئی، رقص و سرود کی محفلیں آراستہ کی گئیں اور ان کی پرورش بڑے پیار اور نگہداری کے ساتھ کی گئی، نظیر چار سال کے تھے کہ دہلی کی تباہی کی وجہ سے ان کی والدہ انہیں آگرہ لے کر چلی گئیں، ان کی ابتدائی تعلیم آگرہ میں ہی ہوئی، نظیر کا خاندان ثروت مند تھا اس لئے انہوں نے اپنے بچپن اور جوانی کے ایام بہت آرام و آسائش میں گزارے، خاندان اور ماحول کے اثر سے سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا، بہت سے کھیلوں میں ان کو گہری دلچسپی تھی، روزگار کی تلاش ہوئی تو نظیر نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا، متھرا میں بچوں کو تعلیم دیتے تھے، کہا جاتا ہے کہ انہوں نے راجہ ولاس رائے کے چھ بچوں کو پڑھایا بعد میں نظیر کو راجہ بھرت پور اور اس کے بعد نواب اودھ واجد علی شاہ نے اپنے مصاحبوں میں رکھنا چاہا لیکن نظیر اپنا وطن چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے، نظیر اکبرآبادی میر، سودا، جرأت، انشاء اور مصحفی کے ہم عصر تھے، یہ دور وہ تھا جس میں اردو کی کلاسیکی شاعری اپنے عروج پر تھی اور غزل کی صنف تخلیقی اظہار کا سب سے اہم ذریعہ سمجھی جاتی تھی، نظیر اکبرآبادی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس عہد میں اردو شاعری کو بالکل ایک نئے اور انوکھے تجربے سے آشنا کیا، نظیر نے اپنی شاعری کے لئے موضوعات اپنے آس پاس بکھری ہوئی زندگی سے چنے، عوامی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جس کو نظیر نے شاعری میں نہ برتا ہو، ہولی، دیوالی، بسنت، راکھی، شب برات، عید، پتنگ بازی، کبوتر بازی، برسات اور اس طرح کے بہت سے موضوعات ان کے یہاں ملتے ہیں، اس زمانے کی مستیاں، حسن وعشق کے مرحلے، تفریحات، بے ہودگیاں یہاں تک کے عامیانہ پن بھی ان کے مزاج اور شاعری کا حصہ رہا، نظیر کی شاعری کی زبان بھی اردو کی معیاری زبان اور لب و لہجے کے علاوہ عوامی بول چال کی زبان ہے، نظیر نے موضوعات بھی عوامی زندگی سے اٹھائے اور ان کو بیان کرنے کے لئے زبان بھی انہیں کی استعمال کی، شاعری میں جس قسم کے موضوعات سے نظیر کا واسطہ تھا، ان کے اظہار کے لئے غزل نا کافی تھی، اسی لئے اردو شعری روایت میں پہلی مرتبہ نظم کو اہمیت حاصل ہوئی۔