شاہ عبدالحئی جہانگیری کے صوفی اقوال


ہم نے ایک زمانے تک بہت تکلیف اٹھائی، پھٹا ہوا جوتا پہنتے تھے، ایک پھٹا لحاف تھا، جسے جاڑے میں اوڑھتے اور گرمی میں اسی کو نیچے بچھا لیا کرتے تھے، مرید جب تک تکلیف نہ اٹھائے گا، غریب لوگوں کا حال کیسے جانے گا؟

دنیا داری کے پردے میں دین داری کرنا مگر دین داری کے پردے میں دنیا داری مت کرنا۔

کمالِ سماع یہ ہے کہ جس طرح سماع بالمزامیر سے اور الفاظ کی تصحیح و تاثیر سے کیفیت پیدا ہوتی ہے ویسی ہی کیفیت گھوڑے کی ٹاپ کی آواز سے بھی پیدا ہو۔

مرید تعمیلِ حکمِ مرشد کو اپنے لیے فرضِ عین اور مرشد خدمتِ مرید کو اپنے اوپر مرید کا احسان تصور کرے۔


ہم اس شخص پر اعتبار نہیں کرتے، جو طریقت اختیار کرنی چاہتا ہے مگر دنیا کے کاموں سے بھاگتا ہے، اول دنیا کے کاموں میں خوب چست و چالاک ہو، پھر طریقت میں جو آئے، ہم اسے آدمی سمجھتے ہیں۔

اگر تم عرش پر بھی آنے جانے لگو، تب بھی تمام بزرگوں کا نہایت ادب کرنا، خواہ وہ ہمارے سلسلے کے ہوں یا غیر سلسلہ کے ہوں، ہم نے تمام جہان کے بزرگوں کا نہایت ادب کیا ہے۔

عرس کے روز ہمیں جو میسر ہوتا ہے اس پر فاتحہ دیتے ہیں، ایک گلاس شربت ہی سہی لیکن عرس کے لیے کسی سے قرض نہیں لیتے، سفرِ حیدرآباد میں ہمارے پاس ایک روپیہ تھا اور عرس کا دن آیا تو آٹھ آنے کی مٹھائی لے آئے اور فاتحہ دے کر طلبہ میں تقسیم کر دی۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere