احمد شاہجہان پوری کا تعارف
حاجی میاں اور احمد شاہجہاں پوری کے نام سے معروف تھے۔ ان کا اصل نام احمد حسین خاں تھا۔ چوں کہ شاہ جہاں پور اترپردیش سے ان کا تعلق تھا اس وجہ سے ان کے نام کے ساتھ شاہجہاں پوری لگا ہواہے1246ھ موافق 1831ء میں شاہجہاں پور میں ان کی ولادت جمعہ کے روز ہوئی۔ تعلیم ابجد اور ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے ہم خانہ سے حاصل کی۔ تصوف و فقر سے ان کو فطری ذوق تھا اس لئے تعلیم و تعلم حاصل کرنے کے بعد صوفیا کی ہم نشینی اختیار کی اور اس دور کے صوفی با صفا مولانا غلام امام خاں سے بیعت حاصل کی۔ غلام امام خاں نے انہیں خرقۂ خلافت عنایت کیا اور جہان صوفی کے چاروں سلسلوں میں بیعت لینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ سیاحت کا شوق تھا،.ابتدائی عمر میں کشمیر و نیپال تک پا پیادہ تشریف لے گئے اورحج بیت اللہ و زیات مدینہ منورہ سے مشرف ہوئے۔ مشاہیر اولیا کی زیارت سے فیض یاب ہونے کے بعد عمر کے آخر حصہ میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بعد صرف عرس خواجگان اور خانقاہوں میں وظیفہ کی خاطر باہر نکلتے اور پھر اپنے گوشہ نشینی کے مقام پر دوبار موجود ہوتے۔ عمرکے آخر ایام میں خرقۂ خلافت اپنے بھائی محمد طاہر حسین خاں کو عطا فرمایا۔ ہمیشہ صحت و تندرست رہنے والے احمد حسین خاں کو پنجہ قضا نے بالآخر اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا۔ فالج سے دوچار ہوئے اور یہ ان کی وفات کی وجہ بنا۔ بالآخر 16 ذی الحجہ 1329ھ مطابق 1911ء میں رحلت فرمائی ۔ وہ دن بھی جمعہ کا دن تھا ۔ شاہجہاں پور کی اپنی خانقاہ میں مدفون ہوئے۔ آپ عبادت و تعلیم و تلقین مریدین ہی میں مصروف رہتے تھے۔ طبعیت میں انکساری اورتواضح بہت تھا۔اشعار بھی موزون کرتے رہتے تھے لیکن یہ بھی یہی کہتے کہ میں شاعر نہیں ہوں ۔ فن شعر سے مجھے آگاہی نہیں ہے صرف دلی جذبات کا اظہار کر لیا کرتا ہوں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ان کو رسمی قیل و قال سے زیادہ رغبت نہ تھی۔ اس لحاظ سے ان کے محل مقصود کا کنگرہ نہایت ہی بلند ہے۔ ان کا کلام توحید و تصوف کا ایک بے بہا بحر ذخار ہے۔ اس میں دلی جذبات کا چہرہ صاف نظر آتا ہے۔ فارسی اور اردو دونوں زبان پر ان کو عبور حاصل تھا لیکن فارسی میں شعر کہنا زیادہ پسند کرتے تھے ۔بعض مریدین کی فرمائش پر ان کی حوصلہ افزائی کے لئے اردو میں بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے۔