ابراہیم عاجزؔ کا تعارف
ابراہیم عاجز 1250ھ مطابق 1834ء میں شیخ پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مختصر زندگی پائی اور صرف 48 سال کی عمر میں کائنات سفلی کا تماشہ دیکھ کر عالم ارواح کا سفر کیا آپ کا وطن شیخ پور ہے جو قصبہ سکندر پور ضلع بلیا سے دو کوس پر واقع ہے۔ آپ وہیں دفن ہوئے۔ آپ کا تعلق شیخ پور کے شیوخ صدیقی النسب سے ہے۔ آپ کا نام مولوی محمد ابراہیم عاجز ہے۔ تخلص عاجزؔ انتخاب فرمایا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔ شادی کے بعد جونپور جاکر علوم متداولہ حاصل کیا۔ آپ کے والد شیخ خصال ایک مرتاض صوفی بزرگ تھے۔ آباو اجداد میں اکثر حضرات عالم فقر و تجرید کے بادشاہ تھے۔ اس مناسبت سے عاجز موروثی صفات درویشانہ کی تصویر تھے۔ ابراہیم عاجزؔ کو اپنے ہم عصر صوفیوں کی صحبت کا شرف حاصل تھا۔ ان کے ہم عصر صوفی آسی سکندرپوری تھےجو آخر میں قطب زمانہ بھی ہوئے اور ان کے برادر عم زاد مولانا وکیل احمد اور مولانا بخشش احمد قاضی پوری اور مولانا واجد علی چندیری پایہ کے عالم اور اکثر آپ کے ہم درس بھی تھے۔ شعر و سخن سے ازلی مناسبت تھی اور ’’طبع موزوں حجت فرزندی آدم بود‘‘ کے مصداق تھے۔ اردو اور فارسی میں آپ کا ایک دیوان جو انہوں نے مرتب کیا تھا ایک خاص دوست کی نافہمی کی وجہ سے ضائع ہو گیا لیکن ایک عرصہ کے بعد کرم خوردہ حالت میں ملا جس کو بڑی کوششوں اور کاوشوں سے طبع کے لائق بنا دیا گیا۔ اس دیوان سے کچھ غزلیں اس ویب سائٹ پر بھی فراہم کی گئی ہیں۔ چوں کہ ان کے زمانہ میں فارسی کا رواج ملک میں رو بہ زوال تھا۔ سرکاری دفاتر سے فارسی کو اٹھا لیا گیا تھا کچھ مخصوص لوگوں نے اس کی نبض کو باقی رکھا تھا اور انشاء پردازی، سخن فہمی اور شعر گوئی کے ذریعہ اس کو زندہ رکھا تھا ان میں ابراہیم عاجزؔ کا نام سر فہرست تھا۔ فارسی شعر و سخن میں انہوں نے حافظؔ اور سعدیؔ کا تتبع کیا۔ صوفی مشرب تھے اس لئے اشعار و ارادات قلبی کا آئینہ ہیں۔ نعت نہایت شیفتگی سے لکھے ہیں۔ خیالات کی پاکیزگی اور زبان کی صفائی بھی حد درجہ ہے۔ اشعار میں جدت تخیل اور جدت تشبیہ داد طلب ہے۔