ابراہیم عاجزؔ کے اشعار
عید سے بھی کہیں بڑھ کر ہے خوشی عالم میں
جب سے مشہور ہوئی ہے خبر آمد یار
شاعران دہر کو اب ہے پریشانی نصیب
کرتے ہیں استاد اکملؔ جمع دیواں ان دنوں
عید سے بھی کہیں بڑھ کر ہے خوشی عالم میں
جب سے مشہور ہوئی ہے خبر آمد یار
عید سے بھی کہیں بڑھ کر ہے خوشی عالم میں
جب سے مشہور ہوئی ہے خبر آمد یار
مرید پیر مے خانہ ہوئے قسمت سے اے ناصح
نہ جھاڑیں شوق میں پلکوں سے ہم کیوں صحن مے خانہ
جہان بیخودی میں مستیٔ وحدت جو لے جائے
فرشتے لیں قدم میرے وہ ہوں میں رند مستانہ
وفا کی ہو کسی کو تجھ سے کیا امید او ظالم
کہ اک عالم ہے کشتہ تیری طرز بے وفائی کا
خط توام کی طرح ان سے لپٹ جائیں گے
ہم نہ مانیں گے کبھی لاکھ کریں وہ انکار
منم آں ماہ اوج حسن در برج زمیں تاباں
کہ ہر شب می شوند از آسماں انجم نثار من
زخم خنداں شکر میں مصروف ہے اے چارہ گر
جب سے پھاہا تو نے رکھا سینہ کے ناسور پر
کہتا ہوں یہ ان کے تصور سے اے دشمن ہستی وہمی
جب ٹھہرا میں اک موج رواں خط موج کی طرح مٹا دے مجھے
غیروں میں نہ میں عرض تمنا سے رکوں گا
اغماض کرے وہ سر محفل کہ خفا ہو
دل ہے وہی دل جس میں بھرا نور خدا ہو
سر ہے وہی جو کعبۂ تسلیم و رضا ہو
دل ہے وہی دل جس میں بھرا نور خدا ہو
سر ہے وہی جو کعبۂ تسلیم و رضا ہو
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere