کمال عظیم آبادی کا تعارف
آپ عظیم آباد (پٹنہ) کے رئیس اعظم سید شاہ مبارک حسین مبارک عظیم آبادی کے فرزند ارجمند اور وحید الہ آبادی کے شاگرد سعادت مند تھے۔
"سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے"
لکھنے والے شاعر بسمل عظیم آبادی کمال عظیم آبادی کے بھانجہ ہوتے ہیں۔ آپ کی پیدائش 5 جمادی الاول 1290ھ میں لودی کٹرہ، پٹنہ میں شیخ احمد اللہ رئیس کے مکان میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے پر نانا کے زیر نگرانی ہوئی۔ عالم شباب میں مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادی سے بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت بھی پائی۔ مولانا کے صاحبزادے مولانا احمدی سے بھی اجازت تھی۔ کمال عظیم آبادی کو شاعری کا شوق شروع سےتھا۔ ان کا اصل نام محی الدین احمد تھا اور آبائی وطن کاکو ضلع جہان آباد۔ شعر و سخن سے گہری دلچسپی رہی۔ اپنے والد شاہ مبارک حسین عظیم آبادی کے استاد وحید الہ آبادی سے شرف تلمذ حاصل کیا اور پھر باضابطہ طور پر شعر کہنے لگے۔ مشاعروں میں بھی جایا کرتے تھے۔ کلکتہ کے مشاعرے کی تفصیل بھی گلدستوں میں ملتی ہے۔ کمال کا دیوان بھی مرتب تھا مگر طبع نہ ہوسکا اور برباد ہوگیا۔ ان کا یہ مشہور شعر آج بھی عظیم آبادی کی گلیوں کو معطر کرتا ہے۔
نام میرا زمیں پہ لکھ لکھ کر
وہ مٹاٹے ہیں نقش پا کی طرح
کمال عظیم آبادی بڑے فراخ دل اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے فرد تھے۔ ان کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ انہیں انگریزوں نے خان بہادر کا خطاب بھی دیا تھا۔ نفیس سے نفیس شۓ ان کے گھر کی زینت ہوا کرتی تھی۔ کمال عظیم آبادی نے بڑے کر و فر اور نام و نمود کے ساتھ زندگی گزاری۔ آخر میں صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوئے اور خلوت نشین ہوئے۔ انہیں حضرت شیخ شہاب الدین پیر جگجوت اور جد امجد حضرت شاہ تبارک حسین کاکوی سے خاصی نسبت تھی۔ ان کے عرس کا اہتمام آپ شان و شوکت سے کیا کرتے تھے۔ حضرت مخدومہ بی بی کمال کا آستانہ کاکو کی کئی مرتبہ مرمت بھی کراچکے تھے۔ کمال عظیم آبادی کا انتقال 14 ذیقعدہ 1335ھ کو اپنے مکان لودی کٹرہ میں ہوا اور حضرت پیر جگجوت کے آستانہ میں مدفون ہوئے۔