رضا وارثی کا تعارف
بابا رضا شاہ وارثی کا اصل نام محمد حسن تھا ۔ ان کا تعلق رؤسائے سلطان پور، اتراپردیش سے تھا۔ ان کی پیدائش 1859ء میں سلطان پور میں ہوئی تھی۔ ان کے والد حاجی وارث علی شاہ کے مرید تھے۔ انہوں نے اپنے فرزند رضا شاہ کو حاجی وارث علی شاہ کے سامنے سلام کرانے کی غرض سے لایا اور بیعت بھی کرادیا۔ کچھ عرصہ اپنی خدمت میں رکھا اور بعد ازاں ریاضت روحانی کا حکم دے کر برما کے جنگلات میں جانے کی اجازت عطا فرمائی۔ کہا جاتا ہے کہ بابا رضا شاہ وارثی سات سال تک برما کے جنگلات میں عبادت الٰہی میں مشغول رہے ۔ انہی جنگلات میں وارث پاک سے ملاقات ہوئی اور حکم ملا کہ اب کلکتہ چلے جاؤ۔ چنانچہ آپ کلکتہ آئے اور پولس میں بحال ہوگئے۔بابا رضا شاہ وارثی کا مزاج بچپن سے فقیرانہ تھا، بارہ سال رنگون اور برما کے جنگالات میں بسر کیا،جذب و کیف کے عالم میں رہا کرتے تھے جس کی وجہ سے پولس کمشنر اور دوسرے لوگ آپ کو دیوانہ اور مجنوں کہا کرتے تھے۔ نوکری سے سبک دوشی کے بعد کلکتہ میں ہی رہے اور کسی کومرید نہ کیا۔ اکثر دیویٰ حاضر ہوتے اور سینکڑوں لوگوں کے ساتھ آتے۔ وارث پاک کے مزار کی چادر پکڑواکر مرید کرواتے تھے، اور کہتے تھے کہ حاجی وارث تمہارے پیر ہیں اور تم ان کے مرید ہو اور ہم تمہارے پیر بھائی ہیں۔ آپ زندگی بہت سادہ گزارتے تھے، کُرتا اور لُنگی آپ کا خاص لباس تھا جو زرد رنگ کا ہوا کرتا تھا۔ بابا رضا شاہ وارثی کے ہزاروں افراد چاہنے والے تھے۔ آپ کے عقیدت مندوں نے سلسلہ وارثیہ کے مشن کی تبلیغ و اشاعت کے لئے 1957ء میں پریم کوٹی کا قیام کیا جو ایک رجسٹرڈ سوسائٹی ہے۔ اس کا مقصد تمام مذاہب میں یکجہتی اور اتحاد کا جذبہ پیداکرنا تھا۔ بابا رضا شاہ وارثی کا کلام تقریباً ایک ہزار نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ یہ 1965ء میں انتخاب فرمودات رضا کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ رضا شاہ وارثی کا انتقال12 شعبان المعظم 17 اپریل 1954ء کو صبح 7 بجے ہوا ۔کلکتہ میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔