شاہ محسن داناپوری کا تعارف
تخلص : 'محسن'
اصلی نام : محمد محسن
پیدائش : 01 Apr 1881 | پٹنہ, بہار
وفات : 01 Jan 1945 | داناپور, بہار, بھارت
رشتہ داروں : شاہ اکبر داناپوری (والد), ہرے شاہ (مرشد), شاہ ظفر سجاد داناپوری (بیٹا), آسی گیاوی (مرشد), روح کاکوی (بیٹا), وفا اکبرآبادی (مرشد)
شاہ محسن داناپوری کی پیدائش اپنی نانیہال گولکھ پور ضلع پٹنہ میں 17 جمادی الثانی روز سوموار 1298ھ موافق 9 مئی 1881ء کو ہوئی۔ آپ کا نام آپ کے جد امجد مخدوم سجاد پاک نے ایک گھنٹہ مراقبہ کے بعد محمد محسن رکھا تھا۔ آپ کا تاریخی نام خورشید حسنین ہے۔ آپ کافی لحیم شحیم اور قوی الجثہ تھے۔ پانچ برس کی عمر میں پڑھنا شروع کردیا تھا۔ اپنے والد کی صحبت اختیار کی۔ جب تھوڑا بڑے ہوئے تو مدرسہ احیاوالعلوم الہ آباد کا رخ کیا اور وہیں سے فارغ ہوئے۔ خانقاہی ماحول ،علم و ادب کی فضا اور بزرگوں کی صحبت نے آپ کے علم کو چمکا دیا۔ آپ کو اپنے والد حضرت شاہ اکبر داناپوری سے سلسلہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ میں بیعت حاصل تھا۔ آپ روز اول ہی اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے۔ آپ تصوف کے وہ رموز بیان کرتے تھے کہ سننے والا متحیر ہوجاتا تھا۔ خواجہ بہاوالدین نقشبند اور سیدنا امیر ابوالعلا سے آپ کو بے پناہ عقیدت تھی۔ 16 شعبان المعظم 1327ھ کو آپ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ داناپورکے دوسرے سجادہ نشین منتخب ہوئے اور 37 برس تک دینی خدمت بحسن و خوبی انجام دیتے رہے، آپ فقر و تصوف کے ساتھ ملک کی سالمیت اور استحکام اور قومی فلاح و صلاح کے لئے بھی پیش پیش رہا کرتے تھے۔ آپ ملی اور سماجی تحریک سے بھی کافی شغف رکھتے تھے۔ 1925ء میں مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی اور سر سید علی امام بیرسٹر کی قیادت میں انجمن حفاظت المسلمین کا سہ روزہ جلسہ پٹنہ میں منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے اکابر سیاسی رہنما شریک اجلاس ہوئے تھے۔ اس جلسے کے پہلے دن کی صدارت باتفاق آرا شاہ محسن داناپوری نے کی تھی۔ اس دوران آپ نے اپنی انقلابی شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا کرتے مگر پھر کچھ ہی سال بعد دنیاوی عز و جاہ سے کنارہ کشی اختیار فرمالیا تھا۔ شاہ محسن داناپوری سیر و سیاحت کے بڑے شوقین تھے۔ انہوں نے ایشیا کے علاوہ ملک عرب تک کا سیر کی ہے۔ بنگال سے کشمیر تک اور لاہور سے ملتان تک شاہ محسن داناپوری کے معتقد بھرے ہوے تھے۔ ناظم آباد کراچی میں حضرت محسن کے مرید و خلیفہ مولانا عبدالغنی شاہ کی خانقاہ بھی تھی۔ 1924ء میں آپ اپنے مرید و خلیفہ حاجی بابو خاں محسنی کے ہمراہ سفر حج بھی کیا۔ آپ کے سینکڑوں خلفا پٹنہ، جہان آباد، گیا، کشن گنج، الہ آباد، آگرہ، رانچی، حیدرآباد، اجمیر، بیکانیر، کراچی، لاہور، راول پنڈی، ڈھاکہ اور چٹا گاؤں وغیرہ میں پائے جاتے تھے۔ مشہور ادیب و شاعر صبا اکبرآبادی آپ کے ہی مرید ہیں۔ آپ فطری شاعر تھے۔ آپ کے شعر و سخن میں تصوف کی آمیزش اور روحانی جلوہ گری نمایاں تھی۔ اپنے والد شاہ اکبر داناپوری ہی سے اصلاح سخن لیتے رہے۔ آپ کی شاعری میں متعدد شعرا کا رنگ پایا جاتا ہے۔ آپ نے1927ء میں اخوان الصفا کی بنیاد ڈالی جس کے تحت مشاعرے بھی ہواکرتے تھے اور ہندوستان کی مایہ ناز ہستیاں شریک مشاعرہ ہوا کرتی تھیں۔ 1919ء میں درگاہ پٹنہ میں سہ روزہ کل ہند تاریخی مشاعرہ ہوا جس میں احسن مارہروی، سائل دہلوی، نوح ناروی، ڈاکٹر مبارک عظیم آبادی اور حامد عظیم آبادی شریک محفل ہوئے۔ لہذا ایک شب کی صدارت شاہ محسن داناپوری نے کی تھی۔ آپ نے جو غزل پڑھی تھی اس کا مطلع یہ ہے۔ قیس رخصت ہوا دنیا سے تو فرہاد آیا ایک ناشاد گیا دوسرا ناشاد آیا شاہ محسن داناپوری شاعر مشرق علامہ اقبال سے بے حد متاثر تھے۔ ان کی غزل پر مخمس بھی کہا ہے۔ آپ کی شاعری کا مکمل گلدستہ کلیات محسن میں موجود ہے۔ آپ نے کئ مشاعرے میں بھی شرکت کی تھی۔ نوح ناروی، سائل دہلوی، سیماب اکبرآبادی، ڈاکٹر مبارک عظیم آبادی آپ کے خاص احباب میں شامل تھے۔ آپ کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہوئی۔ ان میں وفا اکبرآبادی، نظر الہ آبادی، آسی گیاوی، مظفر کاکوی، روح کاکوی زیادہ مشہور ہوئے۔ آپ کی چند کتب کے نام یہ ہیں۔ 1 : کلیات محسن ( مخطوطہ کتب خانہ خانقاہ سجادیہ) 2 : فغان درویش (طبع 1939ء الہ آباد) 3 : برہان العاشقین (طبع 1931ء پٹنہ)
اتوار کی شام 24 محرم الحرام 1364ھ موافق 9 جنوری 1945ء کوآپ کا وصال ہوا۔ آپ کا مزار اقدس آستانہ مخدوم سجاد شاہ ٹولی داناپور ضلع پٹنہ میں انوار تجلیات ہے۔