Sufinama
Shah Naseer's Photo'

شاہ نصیر

1757 - 1838 | دہلی, بھارت

عرفان و احسان کا شاعر

عرفان و احسان کا شاعر

شاہ نصیر کا تعارف

تخلص : 'نصیر'

اصلی نام : نصیرالدین

پیدائش :دہلی

وفات : تلنگانہ, بھارت

 

نام محمد نصیر الدین تھا اور تخلص نصیر، عرفی نام میاں کلوّ تھا، مولانا ابوالکلام آزاد کے مطابق شاہ نصیر سیاہ فام تھے اس لئے گھرانے کے لوگ میاں کلو کہتے تھے۔

نام کے شروع میں شاہ کا لفظ سلسلۂ سادات سے نسبت اور تصوف سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے، آپ شاہ صدر جہاں کی اولاد میں سے تھے، اپنے والد کی وفات کے بعد درگاہ کے سجادہ نشین بھی ہوئے، والد کا نام شاہ غریب اللہ تھا جو خوش طینت اور نیک سیرت بزرگ تھے۔

شاہ نصیر کی تاریخ پیدائش کی تفصیل اس عہد کے کسی تذکرے میں نہیں ملتی، پروفیسر تنویر احمد علوی کا قوی اندیشہ ہے کہ 75-1170ھ موافق 61-1756ء کے مابین ہے، اس کی بنیاد مصحفیؔ کے "ریاض الفصحا" کے وہ کلمات ہیں جس میں انہوں نے شاہ نصیر کے متعلق 35-1230ھ مطابق 20-1814ء کے مابین یہ کلمات لکھے ہیں کہ "اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی"۔

شاہ نصیر کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی، ان کے والد ان کی تعلیم پر بہت توجہ دیا کرتے تھے، ان کے معاصرین تذکرہ نویس حکیم قدرت اللہ قاسم، غلام ہمدانی مصحفی اور یکتا کی رائے میں شاہ نصیر کو تحصیل علم میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، ان تذکرہ نگاروں نے اس کی وجوہات میں شک و تردد کا اظہار بھی کیا ہے، شاید والد کی بے وقت موت کا نتیجہ تھا کہ ان کو تعلیم کا موقع نہ ملا اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہو گئے۔

اپنے شعری ذوق اور تخیل پرواز کی بنا پر شاہ نصیر نے ادب کے شائقین میں اپنا ایک الگ مقام بنایا، باوجود اس کے کہ ان کو مغلیہ دربار کی طرف سے "ملک الشعرا" کا خطاب نہیں ملا تھا پھر بھی وہ بطور ملک الشعرا معروف ہو گئے تھے، دہلی میں اپنے رہائش گاہ پر مہینہ میں دو بار شعری مجلس آراستہ کیا کرتے اور استادِ وقت کہلاتے تھے۔

منشی راجہ چندو لال کھتری دہلی کے رہنے والے تھے لیکن حیدرآباد کو مسکن بنایا تھا وہ شاہ نصیر کے ہم عمر تھے، جب وہ دکن میں سکونت پذیر ہوئے تو نواب ناصر الملک کے عہد میں شاہ نصیرؔ کو دکن بلا لیا، یہاں ان کو ویسے ہی عزت اور مرتبہ ملا جو ان کو دہلی میں ملا کرتا تھا، وہ حیدرآباد کے ایک معزز اور معروف شخصیت کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

1254ھ مطابق 1838ء میں انہوں نے وفات پائی اور موسیٰ قاضی صاحب کی درگاہ میں مدفون ہوئے۔ شاہ نصیر کی وفات کے بعد ان کا پہلا مختصر مجموعہ "انتخاب کلیات شاہ نصیر" کی صورت میں 1295ھ مطابق 79-1878ء میں اعلیٰ پریس میرٹھ سے حافظ محمد اکبر کی کاوشوں سے شائع ہوا، اس کے علاوہ "چمنستان سخن" احمد علی خاں شہید دہلوی کے ذاتی کتب خانے میں موجود نسخہ سے نقل کر کے مطبع فخر نظامی حیدرآباد نے اسے شائع کیا۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے