Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Shah Naseer's Photo'

شاہ نصیر

1757 - 1838 | دہلی, بھارت

عرفان و احسان کا شاعر

عرفان و احسان کا شاعر

شاہ نصیر کے اشعار

باعتبار

رخ پہ ہر صورت سے رکھنا گل رخاں خط کا ہے کفر

دیکھو قرآں پر نہ رکھیو بوستاں بہر خدا

جان کھو بیٹھے گا اپنی یہ نصیرؔ خستہ دل

اس کے پہلو سے اب اٹھ کر گھر کو کیا جاتے ہو تم

ٹک سمجھ کر تو لگاؤ لات ہاں بہر خدا

یہ کنشت دل ہے دیکھو اے بتاں بہر خدا

میرے ہوتے غیر کی جانب ترے ابرو ہلیں

دوستی بالائے طاق اپنی رکھ اے دلبر اٹھا

ملا کیا حضرت آدم کو پھل جنت سے آنے کا

نہ کیوں اس غم سے سینہ چاک‌ ہو گندم کے دانے کا

نکتۂ ایمان سے واقف ہو

چہرۂ یار جا بجا دیکھا

اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا

تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

دو قدم پر رہ گئی ہے منزل مقصود آہ

چھوڑ کر تنہا نہ جاؤ ہمرہاں بہر خدا

ٹک سمجھ کر تو لگاؤ لات ہاں بہر خدا

یہ کنشت دل ہے دیکھو اے بتاں بہر خدا

خط کے لے جانے کو وہاں کوئی میسر نہ ہوا

در ہوا اشک صد افسوس کبوتر نہ ہوا

شاید اس آئینہ رو کے ہے بھرا دل میں غبار

خاک عاشق پر جو وہ دامن جھٹک کر رہ گیا

سینکڑوں مر مر گئے ہیں عشق کے ہاتھوں سے آہ

میں ہی کیا پتھر سے اپنا سر پٹک کر رہ گیا

قید الفت میں وہ ہے چیں کہ قمری نے آہ

اپنی گردن کا نہ منقار سے پھندا کھولا

چشم تر لخت دل سوزاں سے آنسو کو بجھا

طفل ابتر ڈال دے ہے ہاتھ اکثر ہاتھ میں

خدا حافظ ہے بحر عشق میں اس دل کی کشتی کا

کہ ہے چین جبین یار سے موج دگر پیدا

سر زمین شام میں تارا گرا تھا ٹوٹ کر

یا اندھیری رات میں جگنوں چمک کر رہ گیا

سر زمین شام میں تارا گرا ہے ٹوٹ کر

یا اندھیری رات میں جگنو چمک کر رہ گیا

یہ بھی قسمت کا لکھا اپنی کہ اس نے یارو

لے کے خط ہاتھ سے قاصد کی نہ میرا کھولا

یہ بھی قسمت کا لکھا اپنی کہ اس نے یارو

لے کے خط ہاتھ سے قاصد کی نہ میرا کھولا

کیوں نہ رشک آئے گل سرخ پہ شبنم کو دیکھ

کہ میرا اشک تیری کان کا گوہر نہ ہوا

دیکھو کوئے یار میں مت حضرت دل راہ اشک

انتظار قافلہ منزل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ

افسوس عدم سے آ کے کیا کیا ہم نے گلشن ہستی میں

جوں شبنم و گل رویا نہ ہنسا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

آپ سے آئے نہیں ہم سیر کرنے باغباں

لائی ہے باد صبا گلشن میں لپٹا کر لگا

یہ بھی قسمت کا لکھا اپنی کہ اس نے یارو

لے کے خط ہاتھ سے قاصد کی نہ میرا کھولا

گدا کو کیوں نہ سیاحی کی لذت ہو کہ ہوتا ہے

نیا دانہ نیا پانی نیا اک اور گھر پیدا

نامۂ لخت دل اس بے دید تک پہنچا مرا

آج پھر اے قاصد اشک رواں بحر خدا

صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ

دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا

آتشیں رخ پر ترے دیکھے عرق آلود خط

جس نے گر سبزہ کبھو دیکھا نہ ہو تر آگ میں

اے صبا کیا منہ ہے جو دعوائے‌ ہم رنگی کرے

دیکھ کر گلشن میں پھولوں کے کٹوروں کو حنا

انتظار قاصد گم گشتہ نے مارا نصیرؔ

کس طرح اڑ جائیے کوچے میں اس کے پر لگا

خط کے آنے سے پڑا ہے شور ملک حسن میں

دان کر سورج گہن کہتے ہیں اے دلبر لگا

نہیں لخت جگر یہ چشم میں پھرتے کہ مردم نے

چراغ اب کر کے روشن چھوڑے ہیں دو چار پانی میں

اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا

تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

دیکھتے تھے تختۂ گل ہائے آتش کی بہار

جس طرح یارو خلیل اللہ پیمبر آگ میں

اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا

تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

عشق میں تیرے گل کھا کر جان اپنی دی ہے نصیرؔ نے آہ

اس کے سر مرقد پر گل رولا کوئی دونا پھولوں کا

کوئی اس کا ہو گریباں گیر یہ کہتا نہیں

باغباں دامان گل کو گل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ

رخ پہ ہر صورت سے رکھنا گل رخاں خط کا ہے کفر

دیکھو قرآں پر نہ رکھیو بوستاں بہر خدا

آب میں سایہ فگن گر رخ دلبر ہوتا

شاخ ہر موج سے پیدا گل احمر ہوتا

سمجھ کر سانپ اس کو وہ گلے سے میرے آ لپٹا

جو شب بستر پہ دیکھا گل بدن نے ہار کا سایا

آتش دوزخ کا ہم تر دامنوں کو کیا ہے خوف

واعظا جلتی نہیں ہے ہیزم تر آگ میں

عشق کی دولت دل مضطر کا ہے گھر آگ میں

کیوں نہ ہو اکسیر پارہ کشتہ ہو گر آگ میں

انتظار قاصد گم گشتہ نے مارا نصیرؔ

کس طرح اڑ جائیے کوچے میں اس کے پر لگا

در پہ لگواتا ہے گر اپنے شہیدوں کی سبیل

تو پھر اے قاتل لگا تو آب خوروں کو حنا

کان کا بالا ہے یا گرداب بحر حسن ہے

کشتئ دل کو جو میری اب ڈبا جاتے ہو تم

نصیرؔ خستہ جاں جنت سے اس کوچے کو کب بدلے

بہ از ظل ہما ہے یار کی دیوار کا سایا

سوز غم سے تن ز بس ہم دوش خاکستر رہا

اس سے جو چمکا شرر روپوش خاکستر رہا

صورت ہستی میں پھر دیکھیں گے شکل رفتگاں

اب تلک آئینہ ہم آغوش خاکستر رہا

پر کرامت ہے قبائے سرخ میں تیری کمر

ورنہ مو ثابت نہیں رہتا ہے دلبر آگ میں

ایک شب تو بیٹھ میرے حلقۂ آغوش میں

یار مہ پیکر قدم ہالے سے مت باہر اٹھا

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے