تمام
غزل7
شعر13
تعارف
کلام13
دوہا51
فارسی کلام1
نعت و منقبت5
کرشن بھکتی صوفی شاعری4
کرشن بھکتی سنت شاعری1
اوگھٹ شاہ وارثی کے دوہے
سجنی پاتی تب لکھوں جو پیتم ہو پردیس
تن میں من میں پیا براجیں بھیجوں کسے سندیس
جاپ جوگ تپ تھیرتھ سے نرگن ہوا نہ کوئی
اوگھٹؔ گرو دیا کریں تو پل میں نرگن ہوئی
دیا گرو کی دن دونی اور گرو نہ چھوڑے ہاتھ
گرو بسے سنسار میں اور گرو ہمارے ساتھ
ہر ہر میں اوگھٹؔ ہر بسیں ہر ہر کو ہر کی آس
ہر کو ہر ہر ڈھونڈ پھرا اور ہر ہیں ہر کے پاس
سائیں ایسا مگن کرو رہے نہ سونچ بچار
دکھ میں سکھ میں کلیس میں گاؤں بھجن تہار
پاتی لکھنا بھول ہے سجنی چتر ہیں دین دیال
آس گیانی دوسر نہیں کہ جانیں من کا حال
ہر کہیں اور کہیں نہیں اور بدلے پل پل بھیس
ایسے پیا ہرجائی کو بھیجوں کہاں سندیس
رام ملن کا لیکھاسن لے ہاتھ گرو کا تھام
جگ کی ممتا من سے چھوٹے ملیں گے اوگھٹؔ رام
سادھو اوگھٹؔ سبد کو سادھے جوگی کرے سب جوگ
اس ڈگریا ملیں گسائیں ندی ناؤ سنجوگ
جوگی بھوگ وہ کرے جو بن مانگے مل جائے
اوگھٹؔ دنیا یوں تجے کہ من میں لوبھ نہ آئے
اگم سمندر پاپ کا بوجھا ناؤ پھنسی منجدھار
اوگھٹؔ گرو کا دھیان رہے کریں گے بیڑا پار
سائیں کا گھر دور ہے اور سائیں من کے تیر
سائیں سے بیوہار کرے اوگھٹؔ وہی فقیر
بانہہ گہی مجھ پاپن کی تب ایک بچن سن لیؤ
نس دن بپتا پڑے گسائیں اپنا درشن دیؤ
اوگھٹؔ چیلا وہ گنی جو بن گرو تجے نہ سانس
سوتے جگتے دھیان رہے گرو کو راکھے پاس
گرو گوبند کو ایک بچارو دبدھا دکھ نکال
گرو کو اوگھٹؔ اور نجانو گر دھن دین دیال
رین اندھیری باٹ نہ سمجھی تاک میں ہیں ہر بار
اوگھٹؔ دھرم یہ راکھنا گرو کریں نستار
پیتم سوت سندر سہی پر ہمیں بھی تمرے آس
بھولے بھٹکے آؤ گسائیں کبھی تو ہمرے پاس
نارائن کا انت نہ پایا مالا جپ کا کین
رام ملن کی بدھ سن اوگھٹؔ پہلے گر کو چینہ
اوگھٹؔ گھٹ میں پران بسے اور پران بیچ اک چور
جو پکڑے اس چور کو وہ جوگی بر جور
اوگھٹؔ مسجد مندر بھیتر ایک دھیان سمائے
پیچھے دیویں رام درس جو پہلے دبدھا جائے
اوگھٹؔ باجیں رام کے باجن سن لو سیس جھکاے
آسن مارو سبد کو سادھو من سے دھیان لگائے
سکھی نہ پایا ٹھور ٹھکانا پیگ پھرا چہو دیس
ساجن کا گھر دوار نہیں بھیجوں کہاں سندیس
دکھیا رہے پریم کا بھگتی نینن نیر بہائے
بھولے بھی سکھ پاس نہ آوے من کی پیر کلپائے
دیکھے پنڈت سادھو جوگی سنت سادھ ملنگ
پریم کا بھگتی ایک نہ پایا اوگھٹؔ چار النگ
اوگھٹؔ جنم میں ایک بیر ستی ہوت ہے نار
پریم اگن میں جلے پریمی دن میں سو سو بار
اپنی گانٹھ کوڑی نہیں پروہنی ہیں دین دیال
اوگھٹؔ جگ میں دھنی کا داسی ہوت نہیں کنگال
اوگھٹؔ سانچ کو آنچ نہ لاگے جانت ہے سنسار
سائیں دھنی ہے دکھ نہ آوے سانچا رہے بہوار
اوگھٹؔ ہر کو چار النگ ڈھونڈت ہے سنسار
بغل میں بچا نگر ڈھنڈھورا اس کا نہیں بچار