Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Aughat Shah Warsi's Photo'

اوگھٹ شاہ وارثی

1874 - 1952 | مرادآباد, بھارت

حاجی وارث علی شاہ کے مرید اور اپنی صوفیانہ شاعری کے لئے مشہور

حاجی وارث علی شاہ کے مرید اور اپنی صوفیانہ شاعری کے لئے مشہور

اوگھٹ شاہ وارثی کے اشعار

باعتبار

عاشق ہزاروں صورت پروانہ گر پڑے

الٹی نقاب رخ سے جو محفل میں یار نے

دل کا عالم عاشقی میں کیا کہوں کیا ہو گیا

رنج سہتے سہتے پتھر کا کلیجہ ہو گیا

قتل کچھ عاشق ہوئے مقتل میں اس کے ہاتھ سے

کچھ پھرے مایوس اور شوق شہادت لے چلے

عاشقوں کو پھر قضا آئی قیامت ہو گئی

پھر سمند ناز کو اس ترک نے جولاں کیا

اوگھٹؔ جہاں میں اب دل و دیں پوچھتا ہے کون

عاشق کا ان بتوں میں کوئی قدر داں نہیں

وہ رہے آنکھوں میں میری میں نہ دیکھوں غیر کو

یہ ہمارے اور ان کے عہد و پیماں ہو گیا

بتوں کا عشق ہوا جب نصیب واعظ

کہ مدتوں کیا پہلے خدا خدا ہم نے

گر پڑے غش کھا کے عاشق اور مردے جی اٹھے

دو قدم جب وہ چلے یہ حشر برپا ہو گیا

یہ بولا دیکھ کر آئینہ مجھ سے وہ میرا خودبیں

کہو خوش رو جہاں میں اور ہیں میرے مقابل کے

کریں آہ و فغاں پھوڑیں پھپھولے اس طرح دل کے

ارادہ ہے کہ روئیں عید کے دن بھی گلے مل کے

کریں آہ و فغاں پھوڑیں پھپھولے اس طرح دل کے

ارادہ ہے کہ روئیں عید کے دن بھی گلے مل کے

تجھے دیکھ او بت خوش ادا پھری آنکھ ساری خدائی سے

وہ جو یاد رہتی تھی صورتیں انہیں صاف دل سے بھلا دیا

رین اندھیری باٹ نہ سمجھی تاک میں ہیں ہر بار

اوگھٹؔ دھرم یہ راکھنا گرو کریں نستار

کوئے جاناں بھی نہ چھوڑا خانہ ویرانی کے بعد

دیکھنا ہے اب کہاں یہ آسماں لے جائے گا

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے