Sufinama
noImage

میر محمد بیدار

1732 - 1793 | دہلی, بھارت

خواجہ فخرالدین چشتی دہلوی کے مرید اور گم گشتہ صوفی شاعر

خواجہ فخرالدین چشتی دہلوی کے مرید اور گم گشتہ صوفی شاعر

میر محمد بیدار کا تعارف

تخلص : 'بیدار'

اصلی نام : محمد علی

پیدائش :دہلی

وفات : اتر پردیش, بھارت

محمد علی نام، میر لقب، عرف میر محمدی اور تخلص بیدارؔ تھا۔ عرب سرائے شاہجہان آباد میں سکونت پذیر تھے۔ میرؔ اور سوداؔ کے ہم عصر تھے ۔اردو فارسی دونوں زبان میں مشق سخن کرتے تھے۔ استادی کا مرتبہ حاصل تھا۔ خواجہ فخرالدین چشتی دہلوی سے بیعت ہو کر طریقۂ سلسلۂ چشتیہ کے طریق و اطور کو اپنی زندگی کا حاصل بنایا اور لباس درویشی زیب تن کیا۔ میر حسن اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔ "قریب چہاردہ سال شدہ باشد کہ فقیر او را در لباس درویشی در شاہجہان آباد دیدہ بود‘‘ آخرمیں انہوں نے خرقۂ خلافت پہنا۔ آخر وقت میں دہلی سے آگرہ چلے گئے اور وہیں وصال فرمایا۔ قوی روایات ہے کہ وہ اردوکلام کے لئے خواجہ میر درد دہلوی کو اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔ بیدار کے بارے معلومات بہت کم دستیاب ہیں۔ چوں کہ خواجہ میر دردؔ ان کے استاد تھے اس لئے ان کے کلام میں میر دردؔ کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے کلام میں وہ ساری خوبیاں اور خصوصیات موجود ہیں جو ان کے معاصرین کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔

پروفیسر عبدالغفور شہباز لکھتے ہیں کہ "حضرت مولانا فخرالدین جو دہلی کے اکابر مشائخ میں تھے اور اکثر شاہ زادے اور اُمرا ان کے مرید تھے وہ ایک دفعہ اکبرآباد تشریف لائے اور حضرت سیدنا امیر ابوالعلا اکبرآبادی کے مزار مبارک پر چند ماہ معتکف رہے۔ اسی زمانے میں حضرت ملا (کتابوں میں میر لکھا ہے) محمدی بدایونی المتخلص بہ بیدار جن کا مزار اکبرآباد کناری بازار دانت کے کٹرے میں واقع ہے، یہ نظیر(آکبرآباد) کے بڑے دوست تھے، یہ اور نظیر دونوں حضرت سیدنا امیر ابوالعلا اکبرآبادی کے مزار مبارک کے حاضر باش تھے۔ وہیں مولانا سے ملاقات ہوئی اور ان کے حلقہ استرشاد میں آئے اور وہیں سے مذاق تصوف پیدا ہوا۔ میر محمدی بیدار کا حال باطن یوں تحریر کرتے ہیں، اصل ان کی دہلی ہے۔ ذی علم آدمی تھے،۔عہد شباب کو عرب سرا میں بسر کیا جو شاہجہاں آباد سے تین کوس ہے۔ حضرت مولوی محمد فخرالدین صاحب کے آگے سرِ عقیدت جھکایا اور ان کے انفاس متبرکہ سے فائدہ ظاہری و باطنی اٹھایا۔ آغاز صبح پیری میں اکبرآباد تشریف لائے۔ کٹرہ دندان فیل میں قیام کیا۔ دو دیوان کے مالک ہیں۔ اردو میں میر درد سے ان کو فیض سخن حاصل تھا اور فارسی میں مرتضیٰ اقلی بیگ فراق سے"(زندگانی بے نظیر، صفحہ 163) تصوف ان کے روح کے ساتھ پیوست تھا۔ اس کا اثر ان کی کچھ غزلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ غزلیں شروع سے آخر تک اخلاق اور تصوف کے مضامین سے لبریز ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غزل سے امرد پرستی، بوالہوسی اور عامیانہ اظہار عشق کے مضامین نکال کر مرزا جان جاناںؔ، خواجہ میر دردؔ اور سوداؔ جیسے شعرا نے تصوف اور اخلاق کا رنگ بھرا اور ایک شریفانہ مہذب قالب غزل کے مہیا کیا اس کوشش میں میر محمد بیدارؔ بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے