مرزا مظہر جان جاناں کے اشعار
شاخ گل ہلتی نہیں یہ بلبلوں کو باغ میں
ہاتھ اپنے کے اشارے سے بلاتی ہے بہار
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک
جی نکل جاتا ہے جب سنتے ہیں آتی ہے بہار
اگر یہ سرد مہری تج کو آسائش نہ سکھلاتی
تو کیونکر آفتاب حسن کی گرمی میں نیند آتی
مرتا ہوں میرزائی گل دیکھ ہر سحر
سورج کے ہاتھ چونری تو پنکھا صبا کے ہاتھ
مرا جی جلتا ہے اس بلبل بیکس کی غربت پر
کہ جن نے آسرے پر گل کے چھوڑا آشیاں اپنا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere