Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
noImage

احقر بہاری

1859 - 1928 | حیدرآباد, بھارت

بہار شریف کا ایک نمائندہ شاعر

بہار شریف کا ایک نمائندہ شاعر

احقر بہاری کے اشعار

باعتبار

امید نہیں اب کشتئ دل ساحل پہ سلامت جا پہنچے

دریائے الم بھی باڑھ پہ ہے اشکوں کی جدا طغیانی ہے

یہ راز کی باتیں ہیں اس کو سمجھے تو کوئی کیوں کر سمجھے

انسان ہے پتلا حیرت کا مجبور بھی ہے مختار بھی ہے

کچھ فکر تمہیں عقبیٰ کی نہیں احقرؔ یہ بڑی نادانی ہے

دنیا کی خوشی کیا ایذا کیا یہ حادث ہے وہ فانی ہے

یہ عشق کی ہے سرکار احقرؔ غصہ بھی یہاں ہے پیار بھی ہے

ہر زخم جگر کے پھاہے میں کافور بھی ہے زنگار بھی ہے

امید نہیں اب کشتئ دل ساحل پہ سلامت جا پہنچے

دریائے الم بھی باڑھ پہ ہے اشکوں کی جدا طغیانی ہے

کچھ فکر تمہیں عقبیٰ کی نہیں احقرؔ یہ بڑی نادانی ہے

دنیا کی خوشی کیا ایذا کیا یہ حادث ہے وہ فانی ہے

حیران ہے تیرے مذہب سے سب گبرو مسلماں اے احقرؔ

یہ اس کی گلی کا رستہ ہے پر خوف بھی ہے پر خار بھی ہے

دکھائیے آج روئے زیبا اٹھائیے درمیاں سے پردہ

کہاں سے اب انتظار فردا یہی تو سنتے ہیں عمر بھر سے

ڈرتا ہی رہے انساں اس سے امید گر ہے بخشش کی

ہیں نام اسی کے یہ دونوں غفار بھی ہے قہار بھی ہے

کھنچی ہے شمشیر ناز قاتل چلے ہیں مشتاق مرگ گھر سے

کفن لپیٹے ہوئے کمر سے کوئی ادھر سے کوئی ادھر سے

قابو میں دل ناکام رہے راضی بہ رضا انسان رہے

ہنگام مصیبت گھبرانا اک طرح کی یہ نادانی ہے

جب باغ جناں میں بو تیری اے رونق گلشن پھیل گئی

بلبل نے گلوں سے منہ موڑا پھولوں نے چمن کو چھوڑ دیا

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے