Font by Mehr Nastaliq Web
Khwaja Meer Dard's Photo'

خواجہ میر درد

1721 - 1785 | دہلی, بھارت

صوفی شاعر، ہندوستانی موسیقی کے گہرے علم کے لئے مشہور

صوفی شاعر، ہندوستانی موسیقی کے گہرے علم کے لئے مشہور

خواجہ میر درد کے اشعار

باعتبار

دیکھیے اب کے غم سے جی میرا

نہ بچے گا بچے گا کیا ہوگا

باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں

گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں

ایک ایمان ہے بساط اپنی

نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے

ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے

شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے

جان سے ہو گئے بدن خالی

جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

لیکن اس کو اثر خدا جانے

نہ ہوا ہوگا یا ہوا ہوگا

حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم

کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا

نالہ فریاد آہ اور زاری

آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا

نالہ فریاد آہ اور زاری

آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا

آ پھنسوں میں بتوں کے دام میں یوں

دردؔ یہ بھی خدا کی قدرت ہے

خدا جانے کیا ہوگا انجام اس کا

میں بے صبر اتنا ہوں وہ تند خو ہے

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار

کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں

عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے

پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے

وابستہ ہے ہمیں سے گر جبر ہے و گر قدر

مجبور ہیں تو ہم ہیں مختار ہیں تو ہم ہیں

چو نے خالی شدم از آرزوہا لیک عشق او

بگوشم می دمد حرفے کہ من ناچار می‌ نالم

پوچھا میں درد سے کہ بتا تو سہی مجھے

اے خانماں خراب ہے تیرے بھی گھر کہیں

کیا سیر سب ہم نے گلزار دنیا

گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے

ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا

ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم

اپنے ہاتھوں کے بھی میں زور کا دیوانہ ہوں

رات دن کشتی ہی رہتی ہے گریبان کے ساتھ

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے