تمام
غزل27
شعر21
ای-کتاب5
ویڈیو 68
تعارف
گیلری 5
کلام12
بلاگ3
فارسی کلام44
ہوری17
نعت و منقبت3
بسنت3
گیت7
مثنوی3
شاہ نیاز احمد بریلوی کے اشعار
ہجر کی جو مصیبتیں عرض کیں اس کے سامنے
ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو
ہم کو یاں در در پھرایا یار نے
لا مکاں میں گھر بنایا یار نے
امن منم خطر منم زہر منم شکر منم
نفع منم ضرر منم من نہ منم نہ من منم
عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
نیستی ہستی ہے یارو اور ہستی کچھ نہیں
بے خودی مستی ہے یارو اور مستی کچھ نہیں
صورت گل میں کھلکھلا کے ہنسا
شکل بلبل میں چہچہا دیکھا
آپ اپنے دیکھنے کے واسطے
ہم کو آئینہ بنایا یار نے
نکتۂ ایمان سے واقف ہو
چہرۂ یار جا بجا دیکھا
تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا
وہیں حیرت بے خودی نے مجھے آئینہ سا دکھا دیا
کہیں وہ در لباس معشوقاں
بر سر ناز اور ادا دیکھا
چادر سے موج کے نہ چھپے چہرہ آپ کا
برقعہ حباب کا نہ ہو برقعہ حباب کا
جان جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسم گل
ہجر و فرقت کا مری جان یہ گلفام نہیں
ہوتا نہ اگر اس کے تماشے میں تحیر
حیرت سے میں آئینۂ نمط دنگ نہ ہوتا
لایا تمہارے پاس ہوں یا پیر الغیاث
کر آہ کے قلم سے میں تحریر الغیاث
تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا
وہیں حیرت بے خودی نے مجھے آئینہ سا دکھا دیا
عشق میں پوجتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
ایک پل دل کو مرے اس کے بن آرام نہیں
عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
اس آئینہ رو کے وصل میں بھی مشتاق بوس و کنار رہے
اے عالم حیرت تیرے سوا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
با ہمہ خوبروئیم عاشق روئے کیستم
رستہ ز دام جسم و جاں بستۂ موئے کیستم
کہاں چین خواب عدم میں تھا نہ تھا زلف یار کا خیال
سو جگا کے شور نے مجھے اس بلا میں پھنسا دیا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere