Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
noImage

قیصرؔ شاہ وارثی

1887 | کراچی, پاکستان

مولانا لطف اللہ علی گڑھی کے شاگرد خاص

مولانا لطف اللہ علی گڑھی کے شاگرد خاص

قیصرؔ شاہ وارثی کے اشعار

باعتبار

میری خوشی خوشی نہیں میرا الم الم نہیں

مجھ کو ہنسا گیا کوئی مجھ کو رلا گیا کوئی

ادھر تو آنکھوں میں آنسو ادھر خیال میں وہ

بڑے مزے سے کٹی زندگی جدائی میں

مرا عشق منظر عام پر ترا حسن پردۂ راز میں

یہی فرق روز ازل سے ہے ترے ناز میرے نیاز میں

آج تو قیصرؔ حزیں زیست کی راہ مل گئی

آ کے خیال و خواب میں شکل دکھا گیا کوئی

گل ترے گلشن ہے تیرا سب بہاریں ہیں تیری

آشیان و برق سب کہتے ہیں افسانہ ترا

مقام رحمت حق ہے ترے در کی زمیں وارث

ادا ہو جائے میرا بھی کوئی سجدہ یہیں وارث

گل ترے گلشن ہے تیرا سب بہاریں ہیں تیری

آشیان و برق سب کہتے ہیں افسانہ ترا

نہ وہ ہوش ہے نہ وہ بے خودی نہ خرد رہی نہ جنوں رہا

یہ تری نظر کی ہیں شوخیاں یہ کمال ہے ترے ناز میں

ادھر تو آنکھوں میں آنسو ادھر خیال میں وہ

بڑے مزے سے کٹی زندگی جدائی میں

کبھی تنہائیٔ منزل سے جو گھبراتا ہوں

ان کی آواز یہ آتی ہے کہ میں آتا ہوں

بے خودی کی یہی تکمیل ہے شاید اے دوست

تو جو آتا ہے تو میں ہوش میں آ جاتا ہوں

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے