Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Sadiq Dehlvi's Photo'

صادق دہلوی

1926 - 1986 | دہلی, بھارت

خواجہ حسن جہاں گیری کے مرید و خلیفہ اور سلسلہ ابوالعلائیہ جہاں گیریہ حسنیہ کے معروف شاعر

خواجہ حسن جہاں گیری کے مرید و خلیفہ اور سلسلہ ابوالعلائیہ جہاں گیریہ حسنیہ کے معروف شاعر

صادق دہلوی کے اشعار

باعتبار

ہے یہی شرط بندگی کے لئے

سر جھکاؤں تیری خوشی کے لئے

حسرت و ارماں کا دل سے ہر نشاں جاتا رہے

جس میں ہو تیری رضا میری خوشی ایسی تو ہو

زندگی ہے معصیت کا آئینہ

پھر بھی اس پر ناز کچھ ہے تو سہی

نہیں ہوتی وفا کی منزلیں آساں کبھی اس پر

محبت میں جو ہستی آشنائے غم نہیں ہوتی

میری ہستی ہے آئینہ تیرے رخ کی تجلی کا

زمانے پر عیاں تیری حقیقت ہوتی جاتی ہے

صادقؔ نصیب ہوگی مجھے صبح آرزو

وہ شام ہی سے میری نگاہوں میں آ گئے

بجھ رہے ہیں چراغ اشکوں کے

کیسے تابندہ رات کی جائے

وہ آنکھیں وہ زلفیں وہ رخ وہ غمزے وہ ناز و ادا

کس نے اسیر دام کیا ہم خود ہی اسیر دام ہوئے

نہیں آتی کسی کو موت دنیائے محبت میں

چراغ زندگی کی لو یہاں مدھم نہیں ہوتی

ابھی تک تو غبار آلود ہے آئینۂ ہستی

جو چاہیں آپ تو یہ آئینہ آئینہ بن جائے

بلا کے رنج و غم درپیش ہیں راہ محبت میں

ہماری منزل دل تک ہمیں اللہ پہنچائے

تیرے غم کی حسرت و آرزو ہے زبان عشق میں زندگی

جنہیں مل گیا ہے یہ مدعا وہ مقام زیست بھی پا گئے

مجھ کو وہ غم عطا کیجیے

زندگی کا جو حاصل بنے

اپنے ہی غم پہ تبصرہ نہ کروں

کیوں زمانے کی بات کی جائے

جس دن سے میرے دل کو آباد کیا تم نے

انوار کی جنت ہے کاشانہ جسے کہئے

میرے سوز دروں نے آنکھ میں آنسو نہیں چھوڑے

جہاں شعلے بھڑکتے ہوں وہاں شبنم نہیں ہوتی

دل کے ہر گوشے میں تو ہو عاشقی ایسی تو ہو

میں تیرا ہو کر رہوں اب زندگی ایسی تو ہو

وہ بھی صادقؔ گوش بر آواز ہیں

اب میری آواز کچھ ہے تو سہی

تصور میں وہ آئیں گے تو پوری آرزو ہوگی

وہ میرے پاس ہوں گے اور ان سے گفتگو ہوگی

اب تو صادقؔ ہے یہ آرزو

عشق ہی میری منزل بنے

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے