مردان صفی کے اشعار
شکل آدم کے سوا اور نہ بھایا نقشہ
سارے عالم میں یہ اظہار ہے اللہ اللہ
آئینہ ہے آئینہ رویوں کا حسن
بینش اس کی اپنے اندر اور ہے
جب تمہیں تم ہو ہر ادا میری
پھر بھلا مجھ سے کب جدا ہو تم
ہے لطف زندگی کا بعد از فنا اسی میں
نام خدا جو اپنے سب تن بدن سے نکلے
قبر پر میری اگر فاتحہ پڑھنے کے لئے
وہ جو آ جائیں تو تھرا اٹھے تربت میری
آرزو ہم ناخدا کی کیوں کریں
اپنی کشتی کا تو افسر اور ہے
آرزو ہم ناخدا کی کیوں کریں
اپنی کشتی کا تو افسر اور ہے
آنے دو اس گل بدن کو مجھ میں پورے حسن سے
عندلیب دل ہوں عالم مجھ پر نالاں تو سہی
بیٹھے بیٹھے وہ کیا کرتے ہیں ہر گل پہ نظر
دل عاشق ہے مگر سیر کا گلشن ان کا
وحشت نہ قبر میں ہو تم سامنے ہی رہنا
دست جنوں نہ میرا باہر کفن سے نکلے
مرداںؔ جو کوئی ڈوبے دریائے عشق میں وہ
چھوٹے خودی سے اپنے حب وطن سے نکلے
مل گئے باہم خدا کے فضل سے بعد از فنا
اس کو اچھا کیا کہیں ہم سربسر اچھا ہوا
گو ہوئے فرقت کبھی تو کیا جمال یار سے
دم بدم ان کی محبت دل میں گھر پاتی رہی
میرا جسم اور مری جاں ہے وہی جاں بالکل
میں کہوں کیا کہ میں ہوں یار ہے اللہ اللہ
دیکھتے ہیں سرو قدوں کو جو ہم
اس میں گل گشت صنوبر اور ہے
ہر جگہ جب تمہیں ہو غیر نہیں
دونوں عالم میں برملا ہو تم
بیٹھے بیٹھے وہ کیا کرتے ہیں ہر گل پہ نظر
دل عاشق ہے مگر سیر کا گلشن ان کا
کام کعبہ سے نہ ہے نے دیر سے
دین و ایمان یاں برادر اور ہے
بیداری ہو یا خواب ہو ہر حال میں ہے وصل
جو صاحب نسبت ہیں مگر اہل یقیں ہیں
وہ رہے خوش ہم سے مرداںؔ اور کبھی نا خوش رہے
دل میں ہم کو ہر ادا ان کی مگر بھاتی رہی
جلایا مار کر قاتل نے میں اس قتل کے قرباں
ہوا داخل وہ خود مجھ میں میں ایسے دخل کے قرباں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere