Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
noImage

مردان صفی

مردان صفی کے اشعار

باعتبار

شکل آدم کے سوا اور نہ بھایا نقشہ

سارے عالم میں یہ اظہار ہے اللہ اللہ

آئینہ ہے آئینہ رویوں کا حسن

بینش اس کی اپنے اندر اور ہے

جب تمہیں تم ہو ہر ادا میری

پھر بھلا مجھ سے کب جدا ہو تم

ہے لطف زندگی کا بعد از فنا اسی میں

نام خدا جو اپنے سب تن بدن سے نکلے

قبر پر میری اگر فاتحہ پڑھنے کے لئے

وہ جو آ جائیں تو تھرا اٹھے تربت میری

آرزو ہم ناخدا کی کیوں کریں

اپنی کشتی کا تو افسر اور ہے

آرزو ہم ناخدا کی کیوں کریں

اپنی کشتی کا تو افسر اور ہے

حاجیوں کو ہو مبارک حج عید

عاشقوں کا حج اکبر اور ہے

آنے دو اس گل بدن کو مجھ میں پورے حسن سے

عندلیب دل ہوں عالم مجھ پر نالاں تو سہی

بیٹھے بیٹھے وہ کیا کرتے ہیں ہر گل پہ نظر

دل عاشق ہے مگر سیر کا گلشن ان کا

وحشت نہ قبر میں ہو تم سامنے ہی رہنا

دست جنوں نہ میرا باہر کفن سے نکلے

مرداںؔ جو کوئی ڈوبے دریائے عشق میں وہ

چھوٹے خودی سے اپنے حب وطن سے نکلے

مل گئے باہم خدا کے فضل سے بعد از فنا

اس کو اچھا کیا کہیں ہم سربسر اچھا ہوا

گو ہوئے فرقت کبھی تو کیا جمال یار سے

دم بدم ان کی محبت دل میں گھر پاتی رہی

میرا جسم اور مری جاں ہے وہی جاں بالکل

میں کہوں کیا کہ میں ہوں یار ہے اللہ اللہ

دیکھتے ہیں سرو قدوں کو جو ہم

اس میں گل گشت صنوبر اور ہے

ہر جگہ جب تمہیں ہو غیر نہیں

دونوں عالم میں برملا ہو تم

بیٹھے بیٹھے وہ کیا کرتے ہیں ہر گل پہ نظر

دل عاشق ہے مگر سیر کا گلشن ان کا

کام کعبہ سے نہ ہے نے دیر سے

دین و ایمان یاں برادر اور ہے

بیداری ہو یا خواب ہو ہر حال میں ہے وصل

جو صاحب نسبت ہیں مگر اہل یقیں ہیں

وہ رہے خوش ہم سے مرداںؔ اور کبھی نا خوش رہے

دل میں ہم کو ہر ادا ان کی مگر بھاتی رہی

جلایا مار کر قاتل نے میں اس قتل کے قرباں

ہوا داخل وہ خود مجھ میں میں ایسے دخل کے قرباں

پھر نہ آیا پھر کے گر وہ نامہ بر اچھا ہوا

خط کتابت اٹھ گئی اے سیم بر اچھا ہوا

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے