بے نظیر شاہ وارثی کے اشعار
نہیں چلتی کوئی تدبیر غم میں
یہی کیا کم ہے جو آنسو رواں ہے
تیرے غم نے یہ دن دکھایا مجھے
کہ مجھ سے ہی آخر چھڑایا مجھے
شب غم دیکھتا ہوں اٹھ کے ہر بار
وہی ہے یا کوئی اور آسماں ہے
پہنچ جاتی ہے کسی کے گوش دل تک
ہماری آرزو اتنی کہاں ہے
ہمیں دیر و کعبہ خدا و صنم
ہمیں صاحب خانہ گھر بھی ہمیں
کسی کو تو زاہد کو ہوتی محبت
بتوں کی نہ ہوتی خدا کی تو ہوتی
ستم کرتے مل کر تو پھر لطف تھا
جدائی میں کیا آزمایا مجھے
رات بھر پھرتا تھا کنعاں میں زلیخا کا خیال
مصر کو یوسف چلے اس خواب کی تعبیر کو
قبر پر دامن کشاں ہی آؤ آؤ تو سہی
پھر جھٹک دینا ہماری خاک دامن گیر کو
بنایا مجھے غم نے تصویر یاس
انہیں رحم اس حال پر بھی نہیں
ہر اک جسم میں ہے وہی بس خموش
ہر آواز میں بولتا ہے وہی
خدا جانے تھا خواب میں کیا سماں
ارے درد دل کیوں جگایا مجھے
وہی ذات مطلق وہی بے نظیر
وہی شکل انساں خدا ہے وہی
ترے گھر میں اس درجہ چھپ چھپ کے روئے
کہ شاہد ہے ایک ایک کو رونا ہمارا
خدا جانے وہ جا رہے تھے کہاں
ادھر بھی نگاہ کرم ہو گئی
رہے تو بری تا قیودات سے
اسے بند غم سے رہائی رہے
نہ کھلتی کلی گو مری آرزو کی
گرہ ان کے بند قبا کی تو ہوتی
وائے قسمت شمع پوچھے بھی نہ پروانوں کی بات
اور بے منت ملیں بوسے لب گل گیر کو
مرے گھر نہ آئیں نہ مجھ کو بلائیں
ملاقات اب اور راہوں سے ہوگی
ہمیں دیر و کعبہ خدا و صنم
ہمیں صاحب خانہ گھر بھی ہمیں
نہیں چلتی کوئی تدبیر غم میں
یہی کیا کم ہے جو آنسو رواں ہے
نہیں کھولتے آنکھ کیوں بے نظیرؔ
وہ آتا ہے کوئی ادھر دیکھئے
رہے تیری قدرت کا جب تک عمل
یہی اس کی فرماں روائی رہے
خدا جانے تھا خواب میں کیا سماں
ارے درد دل کیوں جگایا مجھے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere