Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Ameer Minai's Photo'

امیر مینائی

1829 - 1900 | رام پور, بھارت

داغ دہلوی کے ہم عصر۔ اپنی غزل ’سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘ کے لئے مشہور ہیں

داغ دہلوی کے ہم عصر۔ اپنی غزل ’سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘ کے لئے مشہور ہیں

امیر مینائی کے اشعار

باعتبار

بحر الفت میں نہیں کشتی کا کام

نوح سے کہہ دو یہ طوفاں اور ہے

کہاں کا نالہ کہاں کا شیون سنائے قاتل ہے وقت مردن

قلم ہوئی ہے بدن سے گردن زباں پہ نعرہ ہے آفریں کا

اس نے خط بھیجا جو مجھ کو ڈاک پر ڈاکہ پڑا

یار کیا کرتا نہ تھا میرے مقدر کا جواب

جب قدم رکھا زمیں پر آسماں پر جا پڑا

بارہا ہم نے کیا ہے امتحان کوئے دوست

میں نہ مانوں گا کہ دی اغیار نے ترغیب قتل

دشمنوں سے دوستی کا حق ادا کیونکر ہوا

گلشن جنت کی کیا پروا ہے اے رضواں انہیں

ہیں جو مشتاق بہشت جاودان کوئے دوست

ہشت جنت شش جہت ہفت آسماں

سب ہوئے پیدا برائے مصطفیٰؐ

ہو کے خوش کٹواتے ہیں اپنے گلے

عاشقوں کی عید قرباں اور ہے

درد دل اول تو وہ عاشق کا سنتے ہی نہیں

اور جو سنتے ہیں تو سنتے ہیں فسانے کی طرح

زمیں ہے آسماں بھی اس کے آگے

عجب برتر مدینے کی زمیں ہے

نہ کور باطن ہو اے برہمن ذرا تو چشم تمیز وا کر

خدا کا بندہ بتوں کو سجدہ خدا خدا کر خدا خدا کر

اسی کا ہے رنگ یاسمن میں اسی کی بو باس نسترن میں

جو کھڑکے پتا بھی اس چمن میں خیال آواز آشنا کر

بادہ خوار تم کو کیا خورشید محشر کا ہے خوف

چھا رہا ہے ابر رحمت شامیانے کی طرح

پھینک دو خط لکھ کے قاصد سے جو تم بیزار ہو

اڑ کے آئے گا جو ہے میرے مقدر کا جواب

یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا

غبار آسا نہیں کہیں کا نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا

ایک دن وہ میرے گھر ہے ایک دن وہ اس کے گھر

غیر کی قسمت بھی ہے میرے مقدر کا جواب

ایک دن وہ میرے گھر ہے ایک دن وہ اس کے گھر

غیر کی قسمت بھی ہے میرے مقدر کا جواب

گلشن جنت کی کیا پروا ہے اے رضواں انہیں

ہیں جو مشتاق بہشت جاودان کوئے دوست

ایک دن وہ میرے گھر ہے ایک دن وہ اس کے گھر

غیر کی قسمت بھی ہے میرے مقدر کا جواب

چاٹتی ہے کیوں زبان تیغ قاتل بار بار

بے نمک چھڑکے یہ زخموں میں مزا کیونکر ہوا

ہر صورت مرگ و زیست اپنی ہے جدا

اس لب نے جلایا تھا ادا نے مارا

تم تو آتے ہی قیامت کرتے ہو صاحب بپا

دل میں آتے ہو تو آؤ گھر میں آنے کی طرح

گھر گھر تجلیاں ہیں طلب گار بھی تو ہو

موسیٰ سا کوئی طالب دیدار بھی تو ہو

نہ کور باطن ہو اے برہمن ذرا تو چشم تمیز وا کر

خدا کا بندہ بتوں کو سجدہ خدا خدا کر خدا خدا کر

اٹھے کیا زانوئے غم سے سر اپنا

بہت گزری رہی ہیہات تھوڑی

پئے گی خوب اے قاتل غضب کا رنگ لائے گی

لگائی ہے جو مہندی پیس اس کو خون بسمل میں

چشمۂ جاری خاصۂ باری گرد سواری باد بہاری

آئینہ داری فخر سکندر صلی اللہ علیہ وسلم

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے