Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Aziz Warsi Dehlvi's Photo'

عزیز وارثی دہلوی

1934 - 1989 | دہلی, بھارت

اوگھٹ شاہ وارثی کے چہیتے مرید

اوگھٹ شاہ وارثی کے چہیتے مرید

عزیز وارثی دہلوی کے اشعار

باعتبار

ترا غم سہنے والے پر زمانہ مسکراتا ہے

مگر ہر شخص کی قسمت میں تیرا غم نہیں ہوتا

مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا

کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے

عشق میں ایسا اک عالم بھی گزر جاتا ہے

ذہن و ادراک کا احساس بھی مر جاتا ہے

کہیں روشنی کہیں تیرگی جو کہیں خوشی تو کہیں غمی

تیری بزم میں ہمیں دخل کیا ترے اہتمام کی بات ہے

کہیں رخ بدل نہ لے اب مری آرزو کا دھارا

وہ بدل رہے ہیں نظریں مری زندگی بدل کر

تیرے مزاج میں ایک دن بھی برہمی نہ ہوئی

خوشی کی بات تھی لیکن مجھے خوشی نہ ہوئی

وہ ادا شناس خزاں ہوں میں وہ مزاج دان بہار ہوں

نہ ہے اعتبار خزاں مجھے نہ یقین فصل بہار پر

وہ ادا شناس خزاں ہوں میں وہ مزاج دان بہار ہوں

نہ ہے اعتبار خزاں مجھے نہ یقین فصل بہار پر

ہوش کی باتیں وہی کرتا ہے اکثر ہوش میں

خود بھی جو محبوب ہو محبوب کی آغوش میں

زمانہ ہیچ ہے اپنی نظر میں

زمانے کی خوشی کیا اور غم کیا

زمانہ ہیچ ہے اپنی نظر میں

زمانے کی خوشی کیا اور غم کیا

کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا ترے پرخلوص شعار پر

جو نصیب گل ہے ترا کرم تو نگاہ لطف ہے خار پر

لفظ الفت کی مکمل شرح اک تیرا وجود

عاشقی میں توڑ ڈالیں ظاہری ساری قیود

جفا و جور کیوں مجھ کو نہ راس آئیں محبت میں

جفا و جور کے پردے میں پنہاں مہربانی ہے

غم دنیا غم ہستی غم الفت غم دل

کتنے عنوان ملے ہیں مرے افسانے کو

جو نوحؔ سے نسبت رکھتے ہیں لا ریب عزیزؔ ان کی کشتی

دم بھر میں ادھر ہو جاتی ہے دم بھر میں ادھر ہو جاتی ہے

وہ کیا حیات ہے جو ترک بندگی نہ ہوئی

چراغ جلتا رہا اور روشنی نہ ہوئی

قدم قدم پہ رہی ایک یاد دامن گیر

تمہاری بزم میں یہ مجھ کو بے خودی نہ ہوئی

مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا

کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے

دی صدا یہ ہاتف غیبی نے ہنگام دعا

آرزو پوری عزیز وارثیؔ ہو جائے گی

ہر آنکھ میں مستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے

اور آپ کی بستی ہے کہیے بھی تو کیا کہیے

مرے ماہ منور تیرے آگے

چراغ دیر کیا شمع حرم کیا

تو اور ذرا محکم کر لے پردوں کی مکمل بندش کو

اے دوست نظر کی گرمی کو ہم آج شرارا کرتے ہیں

ترا غم سہنے والے پر زمانہ مسکراتا ہے

مگر ہر شخص کی قسمت میں تیرا غم نہیں ہوتا

پئے تسکین نظر دیدۂ بینا کے لئے

مختلف روپ کا یہ ایک ہی آئینہ ہیں

اگر ہم سے خفا ہونا ہے تو ہو جائیے حضرت

ہمارے بعد پھر انداز یزداں کون دیکھے گا

ابھی اے جوش گریہ تو نے یہ سوچا نہیں شاید

محبت کا چمن منت کش شبنم نہیں ہوتا

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے