Font by Mehr Nastaliq Web
Kamil Shattari's Photo'

کامل شطاری

1905 - 1976 | حیدرآباد, بھارت

’’آپ کو پاتا نہیں جب آپ کو پاتا ہوں میں‘‘ لکھنے والے شاعر

’’آپ کو پاتا نہیں جب آپ کو پاتا ہوں میں‘‘ لکھنے والے شاعر

کامل شطاری کے اشعار

باعتبار

کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرے دل کی آرزو

اب میری ہر خوشی ہے تمہاری خوشی کے ساتھ

محسوس یہ ہوا مجھے احساس غم کے ساتھ

میں اس کے دم کے ساتھ ہوں، وہ میرے دم کے ساتھ

بطفیل دامن مرتضی میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملا

کہ علی ملے تو نبی ملے جو نبی ملے تو خدا ملا

ذرا ٹھہرو مرے آنسو تو پورے خشک ہونے دو

ابھی آنکھوں میں تھوڑی سی نمی معلوم ہوتی ہے

تمنا دو دلوں کی ایک ہی معلوم ہوتی ہے

اب ان کی ہر خوشی اپنی خوشی معلوم ہوتی ہے

ہم وصل میں ایسے کھوئے گئے فرقت کا زمانا بھول گئے

ساحل کی خوشی میں موجوں کا طوفان اٹھانا بھول گئے

جہاں قدرت کسی سے پھیر لیتی ہے نظر اپنی

وہیں انسان کی بے مائیگی معلوم ہوتی ہے

بے ارادہ کچھ ٹپک پڑتے ہیں آنسو بھی وہاں

زندگی کی جس روش پر مسکرا سکتا ہوں میں

رکھا نہ اب کہیں کا دل بے قرار نے

برباد کر دیا غم بے اختیار نے

تم مرے رونے پے ہنستے ہو خدا ہنستا رکھے

یہ بھی کیا کم ہے کہ رو کر تو ہنسا سکتا ہوں، میں

ہر چند فقط مختار نہیں ہر چند فقط مجبور نہیں

اک آہ تو بھر لوں اپنی خوشی اتنا بھی مجھے مقدور نہیں

اسے چاند سورج سے تشبیہ کیا دوں

جو ہے رشک شمس و قمر اللہ اللہ

ترے ہاتھ میری فنا بقا ترے ہاتھ میری سزا جزا

مجھے ناز ہے کہ ترے سوا کوئی اور میرا خدا نہیں

ترا وجود ہے جان بہار گلشن

تجھی سے نکہت ہر گل ہے یا غریب نواز

جو دل ہو جلوہ گاہ ناز اس میں غم نہیں ہوتا

جہاں سرکار ہوتے ہیں وہاں ماتم نہیں ہوتا

بصد نا مرادی مراد اپنی کاملؔ

کسی کا غم معتبر اللہ اللہ

آخر غم حیات کے ماتم سے فائدہ

غم زندگی کے ساتھ خوشی زندگی کے ساتھ

محبت کے آنسو ہیں پی جائیے

کہیں کوئی طوفان آ جائے نا

میری پہلی پرورش تقدیس کی آغوش میں

قدسیوں کے سر بھی کاملؔ میرے آگے خم رہے

آنسو سنبھل کے پونچھبے بیمار عشق ہوں

دل بھی لگا ہوا ہے میری چشم نم کے ساتھ

مرا ایک سجدہ تو ہو چین کا

خدا ہی جو ٹھہرا خود آ جائے نا

وہ فصل گل میں دل کو جلا کر چلے گئے

اس مرتبہ تو آگ لگا دی بہار نے

اک بعد خیالی سے ہٹ کر غم فرقت کیا

مفلوج نہ ہونے دو احساس معیت کو

ہوا عشق سے یہ ہمیں استفادہ مزے میں وہی ہے جو ہے بے ارادہ

انہیں کی خوشی میں مزیداریاں ہیں نہیں تو بڑا دکھ اٹھانا پڑےگا

زخم دل ہو گئے پھر انکی عنایت سے ہرے

میرے گلشن میں پھر اک تازہ بہار آئی ہے

اے چاراگر خوش فہم ذرا کچھ عقل کی لے کچھ ہوش کی لے

بیمار محبت بھی تجھ سے نادان کہیں اچھا ہوگا

اب خواب میں بھی دید کو آنکھیں ترس گئیں

بے خواب کر دیا غم شب زندادار نے

جو دل ہو جلوہ گاہ ناز اس میں غم نہیں ہوتا

جہاں سرکار ہوتے ہیں وہاں ماتم نہیں ہوتا

کبھی ورطۂ غم میں دل کو ڈبو کر کبھی خون پی کر کبھی خون رو کر

بہت کچھ ابھی اپنی روداد غم کو اسی طرح رنگیں بنانا پڑےگا

خدا حافظ اب دل کی خود داریوں کا وہ آتے نہیں ان کو لانا پڑےگا

محبت سے مجبور ہوں، کیا بتاؤں انہیں کیسے کیسے منانا پڑےگا

تو اسی کی آنکھ کا نور ہے تو اسی کے دل کا سرور ہے

کہ جسے بلند نظر ملی کہ جسے شعور ولا ملا

پی بھی لوں آنسو تو آخر رنگ رخ کو کیا کروں

سوز غم کو کیا کسی عنواں چھپا سکتا ہوں، میں

نشیلی نگاہوں کے مارے ہوؤں کو بس اک بے خودی میں گزارے ہوؤں کو

تیری مست آنکھوں کے قربان ساقی انہیں ساغروں سے پلانا پڑےگا

عزم و استقلال ہے شرط مقدم عشق میں

کوئی جادہ کیوں نہ ہو انسان اس پر جم رہے

یا تو نے نظر خیرہ کر دی اے برق تجلی یا ہم ہی

دیدار میں اپنی آنکھوں کا احسان اٹھانا بھول گئے

اس قادر مطلق کے بندے ہی جو ہم ٹھہرے

ہنستے ہوئے سہنا ہے ہر جبر مشیت کو

جو غم میں مسرت کی گھلنے کو ہوئے پیدا

بد بخت وہ کیا جانیں خود غم کی مسرت کو

ترا وجود ہے جان بہار گلشن چشت

تجھی سے نکہت ہر گل ہے یا غریب نواز

محبت کی پہلی نظر اللہ اللہ

وہ طوفان جذب و اثر اللہ اللہ

تمہارا درد ہے سرمایۂ حیات مرا

خدا کرے کہ یہ ہو لا دوا غریب نواز

محسوس یہ ہوا مجھے احساس غم کے ساتھ

میں اس کے دم کے ساتھ ہوں، وہ میرے دم کے ساتھ

جب چاہنے والے ختم ہوئے اس وقت انہیں احساس ہوا

اب یاد میں ان کی روتے ہیں ہنس ہنس کے رلانا بھول گئے

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے