خواجہ میر اثر کے اشعار
ان بتوں کے لئے خدا نہ کرے
دین و دل یوں کوئی بھی کھوتا ہے
خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے
اثرؔ تو کوئی دم کا مہمان ہے
جنت ہے اس بغیر جہنم سے بھی زبوں
دوزخ بہشت ہے گی اگر یار ساتھ ہے
کون رہتا ہے تیرے غم کے سوا
اس دل خانماں خراب کے بیچ
کدھر کی خوشی کہاں کی شادی
جب دل سے ہوس ہی سب اڑا دی
کیا کہوں تجھ سے اب کے میں تجھ کو
کس طرح دیکھتا ہوں خواب کے بیچ
جان و دل سے بھی گزر جائیں
اگر ایسا ہی خفا کیجئے گا
کہوں کیا خدا جانتا ہے صنم
محبت تری اپنا ایمان ہے
تو نگہ کی نہ کی خدا جانے
ہم تو ڈر سے کبھو نگاہ نہ کی
اثرؔ ان سلوکوں پہ کیا لطف ہے
پھر اس بے مروت کے گھر جائیے
نہیں ہے یہ قاتل تغافل کا وقت
خبر لے کہ باقی ابھی جان ہے
کیا کروں آہ میں اثرؔ کا علاج
اس گھڑی اس کا جی ہی جاتا ہے
تم جور و جفا کرو جو چاہو
ان باتوں پہ کب مجھے نظر ہے
تیرے وعدوں کا اعتبار کسے
گو کہ ہو تاب انتظار کسے
گو زیست سے ہیں ہم آپ بیزار
اتنا پہ نہ جان سے خفا کر
یاں تغافل میں اپنا کام ہوا
تیرے نزدیک یہ جفا ہی نہیں
غم کو با غم بہم نہ کیجے
گر غم ہے تو غم کا غم نہ کیجے
کر کے دل کو شکار آنکھوں میں
گھر کرے ہے تو یار آنکھوں میں
ہوں تیر بلا کا میں نشانہ
شمشیر جفا کا میں سپر ہوں
روز و شب کس طرح بسر میں کروں
غم ترا اب تو جی ہی کھاتا ہے
دم بدم یوں جو بد گمانی ہے
کچھ تو عاشق کی تجھ کو چاہ پڑی
جوں گل تو ہنسے ہے کھل کھلا کر
شبنم کی طرح مجھے رلا کر
ابھی تو لگ نہ چلنا تھا اثرؔ اس گل بدن کے ساتھ
کوئی دن دیکھنا تھا زخم دل بے طرح آلا تھا
نہ رہا انتظار بھی اے یاس
ہم امید وصال رکھتے تھے
دل و غم میں اور سینہ و داغ میں
رفاقت کا یاں عہد و پیمان ہے
نالے بلبل نے گو ہزار کیے
ایک بھی گل نے پر سنا ہی نہیں
تیرے مکھڑے کو یوں تکے ہے دل
چاند کے جوں رہے چکور لگا
مشکل ہے تا کہ ہستی ہے جاوے خودی کا شرک
تار نفس نہیں ہے یہ زنار ساتھ ہے
کیا کہے وہ کہ سب ہویدا ہے
شان تیری تری کتاب کے بیچ
گلوں کی طرح چاک کا اے بہار
مہیا ہر اک یاں گریبان ہے
دن انتظار کا تو کٹا جس طرح کٹا
لیکن کسو طرح نہ کٹی رات رہ گئی
اب غیر سے بھی تیری ملاقات رہ گئی
سچ ہے کہ وقت جاتا رہا بات رہ گئی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere