Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Raqim Dehlvi's Photo'

راقم دہلوی

- 1898 | دہلی, بھارت

راقم دہلوی کے اشعار

باعتبار

اگر ہم تم سلامت ہیں کبھی کھل جائے گی قسمت

اسی دور لیالی میں اسی گردوں کے چکر میں

بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد

حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری

بد گمانی ہے مری وہ غیر پر ہے مہرباں

ایسا کافر دل کسی پر مہرباں ہوتا نہیں

تمہارے گھر سے ہم نکلے خدا کے گھر سے تم نکلے

تمہیں ایمان سے کہہ دو کہ کافر ہم ہیں یا تم ہو

جہاں میں خانہ زاد زلف کو کیا چھوڑ دیتے ہیں

کہ تم نے چھوڑ رکھا مجھ اسیر زلف پیچاں کو

غضب ہے ادا چشم جادو اثر میں

کہ دل پس گیا بس نظر ہی نظر میں

کچھ افق ہے نور آگیں کچھ شفق ہے لال لال

ذرہ ذرہ آئینہ ہے حسن روئے خاک کا

میرے سینہ پر تم بیٹھو گلا تلوار سے کاٹو

خط تقدیر میں سمجھوں خط شمشیر براں کو

یہاں اغماض تم کر لو وہاں دیکھیں گے محشر میں

چھڑانا غیر سے دامن کو اور مجھ سے گریباں کو

امیدیں اپنی سب قایم رہیں گی

اگر وہ ہیں خدائی میں خدا کی

سچ تو یہ ہے کہ آپ ہی کا غم

اب سہارا ہے زندگی کے لئے

غیر کے گھر میں بھی راقمؔ آج تم ہوتے چلو

ایک چھچھوندر چھوڑ کر کچھ گل کھلاتے جائیے

غیر کے سو ناز تم پر اور مجھ پر آپ کے

آپ دبتے جائیے مجھ کو دباتے جائیے

مرے قتل کو آئے اس سادگی سے

چھری ہاتھ میں ہے نہ خنجر کمر میں

بھلایا غم دل نے شوق تماشا

کہ اب آنکھیں کھلتی ہے دو دوپہر میں

وقار التجا بھی ہم نے کھویا

عبث جا جا کے ان سے التجا کی

گوارا کس کو ہو ساقی یہ بوئے غیر صہبا کے

کسی نے پی ہے ساغر میں جو بو ہے غیر ساغر میں

نہ نکلے جب کوئی ارماں نہ کوئی آرزو نکلی

تو اپنی حسرتوں کا خون ہونا اس کو کہتے ہیں

ہم ایسے ہوئے دیکھ کر محو حیرت

خبر ہی نہیں کون آیا ہے گھر میں

وہم ہے یا سہم ہے قاتل کو یا میرا خیال

ہاتھ کانپے جاتے ہیں خنجر رواں ہوتا نہیں

ہماری آرزو دل کی تمہاری جنبش لب پر

تمنا اب بر آتی ہے اگر کچھ لب کشا تم ہو

بیان درد آگیں ہے کہے گا جا کے کیا قاصد

حدیث آرزو میری پریشاں داستاں میری

بیاں سن کر مرا جلتے ہیں شاہد

زباں میں میری گرمی ہے بلا کی

وصال یار جب ہوگا ملا دے گی کبھی قسمت

طبیعت میں طبیعت کو دل و جاں میں دل و جاں کو

ہوا ہے ذوق آرائش کا پھر اس حسن آرا کو

کوئی دے دے اٹھا کر آئینہ دست سکندر میں

ہمیں نسبت ہے جنت سے کہ ہم بھی نسل آدم ہیں

ہمارا حصہ راقمؔ ہے ارم میں حوض کوثر میں

تھکے ہم تو بس التجا کرتے کرتے

کٹی عمر سن سن کے شام و سحر میں

بتا کر شوخیاں اس کو ادا کی

ڈبوئی ہم نے قسمت مدعا کی

بتا کر شوخیاں اس کو ادا کی

ڈبوئی ہم نے قسمت مدعا کی

غیر کے گھر میں بھی راقمؔ آج تم ہوتے چلو

ایک چھچھوندر چھوڑ کر کچھ گل کھلاتے جائیے

غم فرقت ہے کھانے کو شب غم ہے تڑپنے کو

ملا ہے ہم کو وہ جینا کہ مرنا اس کو کہتے ہیں

گیا فرقت کا رونا ساتھ امید و تمنا کے

وہ بیتابی ہے اگلی سی نہ چشم خوں چکاں میری

گئے پہلو سے تم کیا گھر میں ہنگامہ تھا محشر کا

چراغ صبح گاہی میں جمال شمع انور میں

زمانہ کو بدلنے دو خدا وہ دن بھی کر دے گا

تماشا دیکھ لینا ہم سے کرتے التجا تم ہو

زمانہ کو بدلنے دو خدا وہ دن بھی کر دے گا

تماشا دیکھ لینا ہم سے کرتے التجا تم ہو

مجھے تم دیکھتے ہو اور اس حسرت سے میں تم کو

کہ بلبل رو ئے گل کو اور گل بلبل کے ارماں کو

تمہارے گھر سے ہم نکلے خدا کے گھر سے تم نکلے

تمہیں ایمان سے کہہ دو کہ کافر ہم ہیں یا تم ہو

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے