Font by Mehr Nastaliq Web
Purnam Allahabadi's Photo'

پرنم الہ آبادی

1940 - 2009 | لاہور, پاکستان

"بھر دو جھولی میری یا محمد" لکھنے والے شاعر

"بھر دو جھولی میری یا محمد" لکھنے والے شاعر

پرنم الہ آبادی کے اشعار

باعتبار

پریشاں کس لئے ہیں چاند سے رخسار پر گیسو

ہٹا لیجے کہ دھندلی چاندنی اچھی نہیں لگتی

ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا ہے ملال

دل مطمئن بھی آپ سے ہے بے قرار بھی

رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی

ہیں کیسے غم گسار مرے غم گسار بھی

آرزو حسرت تمنا مدعا کوئی نہیں

جب سے تم ہو میرے دل میں دوسرا کوئی نہیں

کام کچھ تیرے بھی ہوتے تیری مرضی کے خلاف

ہاں مگر میرے خدا تیرا خدا کوئی نہیں

وہ آنکھ میرے لیے نم ہے کیا کیا جائے

اسے بھی آج مرا غم ہے کیا کیا جائے

مصر کا چاند بھی شیدا ہے ازل سے ان کا

حسن کا حسن بھی دیوانہ نظر آتا ہے

وہ مجھ سے ملنے کو آئے ہیں میری موت کے بعد

خوشی بھی میرے لیے غم ہے کیا کیا جائے

دل ربائی کی ادا یوں نہ کسی نے پائی

میرے سرکار سے پہلے مرے سرکار کے بعد

آ کر وہ میری لاش پہ یہ کہہ کے رو دیے

تم سے ہوا نہ آج مرا انتظار بھی

ایک دن ایسا بھی ہوگا انتظار یار میں

نیند آ جائے گی دروازہ کھلا رہ جائے گا

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

اس نے میت پہ آ کر کہا

تم تو سچ مچ خفا ہو گئے

دیر سے آنے پہ میرے تیری دل کش برہمی

وہ خفا ہونا ترا وہ روٹھنا اچھا لگا

پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ

اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا

جب وہ آتے نہیں شب وعدہ

موت کا انتظار ہوتا ہے

سب سے ہوئے وہ سینہ بہ سینہ ہم سے ملایا خالی ہاتھ

عید کے دن جو سچ پوچھو تو عید منائی لوگوں نے

آپ معشوق کیا ہو گئے

عاشقوں کے خدا ہو گئے

اجازت ہو تو ہم اس شمع محفل کو بجھا ڈالیں

تمہارے سامنے یہ روشنی اچھی نہیں لگتی

وہ آنکھ میرے لیے نم ہے کیا کیا جائے

اسے بھی آج مرا غم ہے کیا کیا جائے

کوئی دنیا میں نہیں آیا ہمیشہ کے لیے

بس خدا کا نام ہی نام خدا رہ جائے گا

عشق بت کعبۂ دل میں ہے خدایا جب سے

تیرا گھر بھی مجھے بت خانہ نظر آتا ہے

نہ پوچھ حال شب غم نہ پوچھ اے پرنمؔ

بہائے جاتے ہیں آنسو بہائے جاتے ہیں

افسردگی بھی رخ پہ ہے ان کے نکھار بھی

ہے آج گلستاں میں خزاں بھی بہار بھی

دیر سے آنے پہ میرے تیری دل کش برہمی

وہ خفا ہونا ترا وہ روٹھنا اچھا لگا

درد و غم اور اداسی کے سوا کون آتا

جن کو بھیجا تھا مرے گھر میں خدا نے آئے

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

تو چاہے نہ کر دل سے الفت تو چاہے نہ رکھ مجھ سے نسبت

میں تیری نظر میں غیر مگر تو اور نہیں میں اور نہیں

اور کچھ غم نہیں غم یہ ہے

آپ مل کر جدا ہو گئے

کشش چراغ کی یہ بات کر گئی روشن

پتنگے خود نہیں آتے بلائے جاتے ہیں

قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا

لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا

نہ تھی امید ہمدردی کی جن سے

وہی تقدیر سے ہمدرد نکلے

گلشن پہ اداسی کی فضا دیکھ رہا ہوں

وہ درد کے موسم کو بدلنے نہیں دیتے

جب وہ ہوتے ہیں صحن گلشن میں

موسم نو بہار ہوتا ہے

اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے

محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

کیا برباد ارمانوں نے دل کو

مرے دشمن تو گھر کے فرد نکلے

خزاں کا خوف تھا جن کو چمن میں

انہیں پھولوں کے چہرے زرد نکل

گلشن پہ اداسی کی فضا دیکھ رہا ہوں

وہ درد کے موسم کو بدلنے نہیں دیتے

پرنمؔ اس بے وفا کے لیے

میرے آنسو دعا ہو گیے

آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رخ نے

آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا

خزاں کا خوف تھا جن کو چمن میں

انہیں پھولوں کے چہرے زرد نکل

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد

جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا

درد و غم اور اداسی کے سوا کون آتا

جن کو بھیجا تھا مرے گھر میں خدا نے آئے

بڑھ کے طوفاں میں سہارا موج طوفاں کیوں نہ دے

میری کشتی کا خدا ہے نا خدا کوئی نہیں

درد و غم اور اداسی کے سوا کون آتا

جن کو بھیجا تھا مرے گھر میں خدا نے آئے

یاس و حسرت کا ترے بعد آئینہ رہ جائے گا

جو بھی دیکھے گا مرا منہ دیکھتا رہ جائے گا

قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا

لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا

قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا

لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے