فنا بلند شہری کے اشعار
جو مٹا ہے تیرے جمال پر وہ ہر ایک غم سے گزر گیا
ہوئیں جس پہ تیری نوازشیں وہ بہار بن کے سنور گیا
ہے وجہ کوئی خاص مری آنکھ جو نم ہے
بس اتنا سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا کرم ہے
کر کے سنگھار آئے وہ ایسی ادا کے ساتھ
آئینہ ان کو دیکھ کر حیران ہو گیا
مجھ کو خدا سے آشنا کوئی بھلا کرے گا کیا
میں تو صنم پرست ہوں میرا کوئی خدا نہیں
دیکھا جو اس صنم کو تو محسوس یہ ہوا
جلوہ خدا کا صورت انسان ہو گیا
میں ہوں ایک عاشق بے نوا تو نواز اپنے پیام سے
یہ تری رضا پہ تری خوشی تو پکار لے کسی نام سے
جلوہ جو ترے رخ کا احساس میں ڈھل جائے
اس عالم ہستی کا عالم ہی بدل جائے
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا
کر اپنی نظر سے مرے ایمان کا سودا
اے دوست تجھے میری محبت کی قسم ہے
کس طرح چھوڑ دوں اے یار میں چاہت تیری
میرے ایمان کا حاصل ہے محبت تیری
اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی
ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں
بے خودی میں بھی ترا نام لئے جاتے ہیں
روگ یہ کیسا لگا ہے ترے مستانے کو
تیرے در سے نہ اٹھا ہوں نہ اٹھوں گا اے دوست
زندگی تیرے بنا خواب ہے افسانہ ہے
دیکھا جو اس صنم کو تو محسوس یہ ہوا
جلوہ خدا کا صورت انسان ہو گیا
مجھ کو تنہا دیکھنے والے نہ سمجھیں راز عشق
میری تنہائی کے لمحے یار کے آغوش ہیں
عشق میں چاند ستاروں کی حقیقت کیا ہو
جلوۂ یار پہ قربان سحر ہوتی ہے
جنوں ظاہر ہوا رخ پر خودی پر بے خودی چھائی
بہ قید ہوش میں جب بھی قریب آستاں پہنچا
سر جب سے جھکایا ہے در یار پہ میں نے
محراب خودی جلوہ گہہ شمع حرم ہے
مرے داغ دل وہ چراغ ہیں نہیں نسبتیں جنہیں شام سے
انہیں تو ہی آ کے بجھائے گا یہ جلے ہیں تیرے ہی نام سے
تو بچھڑ گیا ہے جب سے مری نیند اڑ گئی ہے
تری راہ تک رہا ہوں مرے چاند اب تو آ جا
باہوش وہی ہیں دیوانے الفت میں جو ایسا کرتے ہیں
ہر وقت انہی کے جلووں سے ایمان کا سودا کرتے ہیں
پھر درد جدائی کا جھگڑا نہ رہے کوئی
ہم نام ترا لے کر مر جائیں تو اچھا ہو
تم ہو شریک غم تو مجھے کوئی غم نہیں
دنیا بھی مرے واسطے جنت سے کم نہیں
کس کو سناؤں حال غم کوئی غم آشنا نہیں
ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں
نہ دکھاتے مجھے جلوہ مگر اتنا کرتے
آپ کا غم مری تسکین کا ساماں ہوتا
ہر گھڑی پیش نظر عشق میں کیا کیا نہ رہا
میرا دل بس تری تصویر کا دیوانہ رہا
اپنی قسمت پہ فرشتوں کی طرح ناز کروں
مجھ پہ ہو جائے اگر چشم عنایت تیری
جذبۂ عشق میں جنت کی تمنا کیسی
یہ بلندی تو مری گرد سفر ہوتی ہے
اے ضبط دل یہ کیسی قیامت گزر گئی
دیوانگی میں چاک گریبان ہو گیا
ترا غم رہے سلامت یہی میری زندگی ہے
ترے غم سے میرے جاناں مرے دل میں روشنی ہے
کہ خرد کی فتنہ گری وہی لٹے ہوش چھا گئی بے خودی
وہ نگاہ مست جہاں اٹھی مرا جام زندگی بھر گیا
غم جاناں کو جان جاں بنا لے دیکھ دیوانے
غم جاناں سے بڑھ کر اور کوئی غم نہیں ہوتا
میں ہوں ایک عاشق بے نوا تو نواز اپنے پیام سے
یہ تری رضا پہ تری خوشی تو پکار لے کسی نام سے
اپنے دامن میں چھپا لے مجھے محبوب مرے
مری بگڑی ہوئی قسمت کا ستارہ ہو جا
تری طلب تیری آرزو میں نہیں مجھے ہوش زندگی کا
جھکا ہوں یوں تیرے آستاں پر کہ مجھ کو احساس سر نہیں ہے
مرے نام کی نشانی نہ رہے جہاں میں باقی
مری جان لینے والے مری قبر بھی مٹا جا
جمال یار پہ یوں جاں نثار کرتا ہوں
فنا کے بعد فناؔ گھر میں روشنی ہوگی
اندھیرے لاکھ چھا جائیں اجالا کم نہیں ہوتا
چراغ آرزو جل کر کبھی مدھم نہیں ہوتا
اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی
ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں
غم دنیا غم ہستی غم الفت غم دل
کتنے عنوان ملے ہیں مرے افسانے کو
ہاں وہی عشق و محبت کی جلا ہوتی ہے
جو عبادت در جاناں پہ ادا ہوتی ہے
مری التجا ہے تجھ سے مری بندگی بدل دے
کہ ترے کرم مری جاں مری لو لگی ہوئی ہے
نگاہ یار مری سمت پھر اٹھی ہوگی
سنبھل سکوں گا نہ میں ایسی یہ بے خودی ہوگی
بدلتی ہی نہیں قسمت محبت کرنے والوں کی
تصور یار کا جب تک فناؔ پیہم نہیں ہوتا
موت سے آپ کی الفت نے بچا رکھا ہے
ورنہ بیمار غم ہجر میں کیا رکھا ہے
مری لو لگی ہے تجھ سے غم زندگی مٹا دے
ترا نام ہے مسیحا مرے درد کی دوا دے
اس کو پانا ہے تو کشتی سے کنارا کر لے
ڈوب کر بحر محبت کا کنارا ہو جا
حسن بتاں کا عشق میری جان ہو گیا
یہ کفر اب تو حاصل ایمان ہو گیا
اس کا ایمان لوٹتے ہیں صنم
جس کو اپنا شکار کرتے ہیں
دیوانوں پہ کس درجہ ترا لطف و کرم ہے
بخشا ہے جو غم تو نے وہی حاصل غم ہے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere